
Thursday, June 14, 2012
|
 |
Makhzan-e-Urdu Adab
|
|
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
|
|
2009
کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جاۓ
کنارے آ لگے عمرٍرواں یا دل ٹھہر جاۓ
اماں کیسی کہ موجٍ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جاۓ تو شائد بازوۓ قاتل ٹھہر جاۓ
______________________
کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جاۓ
کنارے آ لگے عمرٍرواں یا دل ٹھہر جاۓ
شاعر کے درد بے انتہا ہیں ، مصائب اتنے کہ گویا اک قافلہ ہو ، تکلیفیں اتنی کہ جیسے جھرمٹ ہو۔ بقول میر ،
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
درد کا کارواں کہنے سے شاعر کی مراد ہےکہ اس کے تمام دکھ درد اک دوسرے سے ایسے بندھے ہوۓ ہیں اور اس طرح منظم ہیں جیسے اک قافلہ ہو۔ قافلے کی حرکت تو قابلٍ تسلیم ہے مگر شاعر نے منزل کی حرکت کا بھی ذکر کیا ہے۔ یعنی شاعر کے رنج و غم اک قافلے کی صورت منزل کی جانب بڑھے جا رہے ہیں اور اذیت کی بات تو یہ ہے کہ منزل کا بھی کوئ ٹھکانہ نہیں اور یہ شاعر کی دسترس سے دور ہے۔
اگلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ یہ میری گزرتی ہوئ عمر بھی کہیں ٹھہر جاۓ ۔ گویا شاعر اپنی موت کی تمنا کر رہا ہے کیوں کہ یہ ہی اک طریقہ ہے مصائب و آلام سے چھٹکارہ پانے کا ۔ شاعر اس بے چینی میں یہ بھی آرزو کر رہا ہے کہ یا تو موت آ جاۓ یا پھر میرے دل کو صبر و قرار ۔ بقول غالب
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں
درد کا کارواں شاعر کے لئے ایک مسلسل اذیت کا باعث ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اس سے فرار کے لئے دعا
گو ہے ۔ شاعر کے الفاظ میں جو کسک ہے وہ اس کے درد کی ترجمان ہے۔
جاری ہے۔ ۔ ۔
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
|