View Single Post
  #1  
Old Tuesday, June 19, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Majeed Amjad: Fikr o Funn

مجید امجد کی شاعری میں وقت بہ طور موضوع
ڈاکٹر سید عامر سہیل
.
مجیدامجد کے یہاں فلسفیانہ اور متصوفانہ موضوعات کی تفہیم کے لیے بھی ان کے کلام کو ایک کلیت میں دیکھنا ہوگا۔ ان موضوعات میں ’’وقت‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ وقت یا زماں کے حوالے سے اگرچہ مشرق و مغرب کے فلاسفہ نے بہت کچھ کہا ہے اور اسے سمجھنے کے کئی منطقے دریافت کیے ہیں۔ پھر بھی یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کہنے اور سوچنے کی گنجائش ہے۔ وقت ایک سیدھی دھار ہے، یہ محض فریبِ خیال ہے، یہ دائرے کی گردش ہے، زماں ایک مرحلے پر ساکن ہے، زمانہ خدا ہے۔اور اس انداز کے بے شمار نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے ہیں تاہم یہ معاملہ ہنوز بحث کا متقاضی ہے۔


مجیدامجد نے بھی وقت کو اور اس کی گردش کو محسوس کیا ہے اور اسے اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔ وقت کے موضوع کو شاعرانہ تجربہ بنانے کے اس عمل میں جہاں ان کا مطالعہ کام آیا ہے وہاں وہ زندگی کے ذاتی تجربات کو بھی اِس کی تفہیم کا ذرریعہ بناتے ہیں۔ اس لیے کہیں تو ان کا انداز ایک شاعر کا انداز بن جاتا ہے اور کہیں وہ فلسفے اور جدید علوم کے حامل شخص کا انداز اختیار کرجاتے ہیں۔ وقت کے بارے میں غوروفکر کرنے کا رویہ ان کی شاعری کے ابتدائی ادوار سے ہی ملتا ہے۔ ڈاکٹرخواجہ زکریا اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ


’’مجیدامجد اس دَور کا واحدفلسفی ہے جس کے ہاں سب سے زیادہ جو تصور اُبھرتا ہے وہ وقت کے بارے میں ہے۔ امجد کی پوری شاعری پر وقت کا احساس جاری ہے۔ کبھی کبھی تو یہ خیال آنے لگتا ہے کہ ان کے ہاں خدا کا متبادل وقت ہے۔ خدائے وقت تو ہے جاودانی جیسے مصرعوں سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے ہاں کائنات کا چکر وقت کے دم سے رواں رہتا ہے۔‘‘



ابتدائی دَور کی نظم ’’حُسن‘‘ میں وقت کے تصور کی نہایت ہلکی سی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ نظم حُسن کے خارجی منظرنامے سے زیادہ داخلی کیفیت اور اس سے بڑھ کر ازلی حسن کے اظہار کی مظہر ہے۔ خصوصاً آخری شعر میں مجیدامجد حُسن کو ظہورِ کون و مکاں کا سبب قرار دیتے ہوئے نظامِ سلسلہ روز و شب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔

ظہورِ کون و مکاں کا سبب فقط میں ہوں
نظامِ سلسلۂ روز و شب ، فقط میں ہوں


مجیدامجد کے یہاں تصور وقت کے حوالے سے جو اہم ترین نظمیں پائی جاتی ہیں اُن میں ’’کنواں‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ یہ نظم وقت کے دولابی (Circular ) تصور کو پیش کرتی ہے ۔ مجیدامجد وقت کو سیدھی لکیر کی مانند قرار نہیں دیتے کہ جہاں واقعات مخالف سمت سے گزرتے ہوئے ماضی کی گپھا میں ڈوب جاتے ہیں بلکہ وہ وقت کے دائروی تصور کے حامل ہیں۔ دائرے کی اس حرکت کے باعث وقت ایک بے منزل مسافر ہے جو ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے۔ مجیدامجد نے کنویں اور بیل کی علامت سے وقت اور اس کے جبر کو پیش کیا ہے کہ وقت کی حرکت ہر آن جاری ہے، ہر لمحہ حال میں اسیر ہونے کے باوجود اپنی سیمابی میں ماضی کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے نہ صرف وقت کو بلکہ زندگی کی بے ثباتی کو بھی موضوع بنایا ہے اور ’’کنوئیں والے‘‘ (خدا) کی اُس بے نیازی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو ایک عظیم خالق کی طرح عملِ تخلیق کی تکمیل کے بعد اپنی ہی تخلیق سے الگ ہو جاتا ہے۔ یہ نظم مجیدامجد کے تصور وقت کا پہلا اور پُراثر اظہاریہ ہے۔


اور اک نغمہ سرمدی کان میں آ رہا ہے ، مسلسل کنواں چل رہا ہے
پیا پے مگر نرم رو اس کی رفتار ، پیہم مگر بے تکان اس کی گردش
عدم سے ازل تک ، ازل سے ابد تک ، بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش
نہ جانے لیے اپنے دو لاب کی آستینوں میں کتنے جہاں اس کی گردش
رواں ہے رواں ہے
تپاں ہے تپاں ہے
یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے
کنواں چل رہا ہے

وقت اور زندگی کو دیکھنے کے اس رویے کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجیدامجد کے یہاں وقت ایک ناگزیر حرکت ہے جو اپنے جَلو میں بے شمار خوشیوں اور غموں کو لیے ہوتی ہے، ایک سَیل ہے جو ہر شے کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جاتا ہے، عدم سے وجود میں آنے اور وجود سے پھر عدم کی سمت بڑھنے کا عمل زندگی ہے۔ ڈاکٹرخواجہ زکریا اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ



’’امجد کے ہاں وقت کا تصور ایک اندھیری رات کے طوفان کی مانند ہے جو ہماری طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ یہ طوفان عدم سے چلا تھا اور ازل سے پیدائش کا تعاقب کر رہا ہے۔ اشیا ازل سے پیدا ہونی شروع ہوئی ہیں اور مسلسل پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ جونہی کچھ چیزیں پیدا ہوتی ہیں وقت کچھ پرانی چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور نئی چیزوں کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔‘‘


’’پنواڑی‘‘ میں مجیدامجد نے اگرچہ ایک سماجی اور معاشرتی پہلو کو موضوع بنایا ہے تاہم وقت کے دائروی تسلسل کی وضاحت یہاں بھی نظر آتی ہے۔ یہ سفر انہوں نے ایک شخص (جو اتفاق سے پنواڑی ہے) کو علامت بنا کر طے کیا ہے۔ یہاں انہوں نے نسلوں کے گزرنے اور نئی نسلوں کے آجانے کو وقت کا تسلسل قرار دیا ہے۔ بوڑھے پنواڑی کی تمام عمرایک بوسیدہ دکان میں پان لگاتے اور سگریٹ کی خالی ڈبیوں کے محل سجاتے گزری ہے۔ اس کی زندگی کسیلے پتوں کی ایک گتھی ہے جسے وہ ساری عمر سلجھاتا رہا ہے اور اس کے مرنے کے بعد یہ ساری محرومیاں اور خواب اگلی نسل میں منتقل ہوجاتے ہیں گویا وقت گزرتا رہتا ہے اور ایک نسل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔



مجیدامجد کے یہاں وقت کے حوالے سے ’’امروز‘‘ ایک ایسی نظم ہے جو اپنی فلسفیانہ گہرائی اور تہہ داری کے سبب معنویت سے بھرپور ہے۔ نظم کا اُسلوب اور بیانیہ تو اپنی جگہ خوبصورتی رکھتا ہی ہے، اس کا موضوع بھی اپنی پیش کش کے اعتبار سے بڑے بلیغ انداز میں آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نظم ۱۸؍مارچ ۱۹۴۵ء کی تخلیق ہے اور اس سے پہلے وہ ۱۹۴۱ء میں ’’کنواں‘‘ اور ۱۹۴۴ء میں ’’پنواڑی‘‘ ایسی نظمیں کہہ چکے تھے یعنی یہ وہ عرصہ ہے جب وہ وقت کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے مطالعہ کر رہے تھے اور اس مطالعہ کو اپنی فکر اور تصور کے مطابق شعری شکل دے رہے تھے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دَور میں یہ موضوع اپنی ارتقائی منزلیں طے کر رہا تھا۔


یہ نظم درحقیقت وقت کے ازلی اور ابدی تسلسل میں اس لمحۂ مختصر کو اہمیت دیتی ہے جو بظاہر عارضی اور فانی ہے اور جو ایک دن وقت کے دیوتا کے حسیں رتھ کے پہیوں تلے کھلونے کی طرح کچلا جاتا ہے تاہم یہی وہ مختصر عرصہ ہے جو ’’حال‘‘ کی شکل میں شاعر کو نصیب ہوا ہے، اس لبالب پیالے نے آخر ایک روز چھلک جانا ہے اسی لمحہ میں شاعر زندگی گزارتا ہے اور اس نامعلوم کو تلاش کرنے کی سعی کرتا ہے جو اس کی نظروں کی زد میں نہیں ہے۔ یوں ایک حوالے سے یہ نظم ’’حال‘‘ کے زمانی تعین کے باوجود کسی ماضی ہی کا ایک حصہ ہے۔ ڈاکٹرفخرالحق نوری اس نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ



’’مجیدامجد چند روزہ حیاتِ مستعار پر قناعت کرتے ہوئے اسے بہت اہمیت دیتے نظر آتے ہیں کیونکہ انسان کو میسر گھڑیوں کے توسط سے ہی معاصر اشیاء پر تصرف حاصل ہوتا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وقت کی بے کراں وسعتوں اور روزوشب کے جاودانی تسلسل میں سے چند معین لمحے، جن سے زندگی کے اجالے اور اندھیرے عبارت نہیں اور ان لمحوں میں موجود ہر شے ہمیشگی کے خزانوں میں سے میرا حصہ ہے۔‘‘

نظم کا پہلا بند ابد کے سمندر (وقت) میں ایک زندگی کی موج کی کم مائیگی اور فناپذیری کو پیش کرتا ہے۔ وقت کاسفر ان سنی راگنی کی طرح اس مختصر زندگی میں اپنا طلسم دکھاتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے، مگر یہی مختصر وقفہ ایک فرد کے لیے ابد کے خزانوں سے کم نہیں۔


ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے
کسی اَن سنی دائمی راگنی کی کوئی تان ، آزردہ ، آوارہ ، برباد
جو دم بھر کو آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کی سنگیت میں ڈھل گئی ہے
زمانے کی پھیلی ہوئی بے کراں وسعتوں میں یہ دوچار لمحوں کی معیاد
طلوع و غروبِ مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دوچار کڑیاں
یہ کچھ تھرتھراتے اجالوں کا روماں، یہ کچھ سنسناتے اندھیروں کا قصہ
یہ جو کچھ کہ میرے زمانے میں ہے اور یہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں میں ہوں
یہی میرا حصہ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے، بس یہی میرا حصہ

نظم کا دوسرا بند بھی اسی احساس کو آگے بڑھاتا ہے کہ وقت کے سمندر میں کیسے کیسے انسان پیدا ہوتے ہیں اور پھر اپنا لمحہ مختصر گزار کر فنا سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ دیوتا کا رتھ ہر شے کو اپنے پہیوں تلے روند ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مجیدامجد نے یہاں ایک اور نکتہ پیش کیا ہے کہ میری زندگی کے بعد زمانہ کیا کروٹیں لیتا ہے، اس سے انہیں کوئی تعلق نہیں بلکہ انہیں تو صرف اپنے لمحے میں جینے اور اس میں کچھ اَن دیکھا دیکھ لینے کی حسرت ہے۔


مجھے کیا خبر ، وقت کے دیوتا کی حسیں رتھ کے پہیوں تلے پس چکے ہیں
مقدر کے کتنے کھلونے ، زمانوں کے ہنگامے، صدیوں کے صد ہا ، ہیولے
مجھے کیا تعلق ، میری آخری سانس کے بعد بھی دوشِ گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لازوال آبشارِ رواں کا وہ آنچل ، جو تاروں کو چھو لے
مگر آہ یہ لمحۂ مختصر! جو مری زندگی ، میرا زادِ سفر ہے
مرے ساتھ ہے ، میرے بس میں ہے ، میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خراباتِ شام و سحر میں، یہی کچھ
یہ اک مہلتِ کاوشِ دردِ ہستی! یہ اک فرصتِ کوششِ آہ و نالہ

جب کہ نظم کا تیسرا بند زندگی کے ہنگاموں سے متعلق ہے اور اس لمحہ مختصر کی تفصیل ہے جسے شاعر نے دوسرے بند میں پیش کیا ہے۔ یوں یہ نظم ماضی اور مستقبل کے ادراک کے باوجود حال کے لمحے سے زندگی کو دیکھنے کی تمنا ہے۔ مجیدامجد کے یہاں زندگی کے تمام تر ہنگامے اور رونقیں تو وقت کے ابدی سمندر میں جاری و ساری ہیں مگر جو لمحہ میسر آجائے اس میں رہتے ہوئے اَن دیکھے کی تلاش ضروری ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجیدامجد وقت کے زمانی تعین کا ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ حال کے لمحے میں وقت کو یک جا دیکھتے ہیں یعنی وہ وقت کو ایک فرد کے حوالے سے کلیت میں دیکھتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ کلیت کا یہ انفرادی تصور ابد کے سمندر کا مکمل ادراک نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹروحیدقریشی کہتے ہیں:



’’مجیدامجد اس ایک لمحے کو جاودانی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو ہماری آپ کی سب کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہ لمحہ اس وقت ہماری گرفت میں ہے اور مستقبل میں یہی لمحہ ماہ و سال کے بہتے ہوئے آبشار کا دھارا ہو جائے گا ، اس ایک لمحے کے اندر کتنے مناظر چھپے ہیں۔۔۔۔ یہی مجیدامجد کا آرٹ ہے اور یہی مستقبل کا خوش آئند خواب ہے۔‘‘


’’امروز‘‘ کے بعد آنے والی بہت سی نظموں میں مجیدامجد نے وقت کے تصور کو کہیں زمانوں، کہیں صدیوں اور کہیں قرنوں کی شکل میں دیکھا ہے۔ وقت کے اِس تصور کی جھلک تسلسل کے ساتھ ان کی نظموں میں مل جائے گی۔ مثلاً ’’رودادِ زمانہ‘‘ میں نردبانِ شام و سحر کے ساتھ اُٹھتی ہوئی صنم خانہ ایام کی تعمیر، ’’منزل‘‘ میں رازِ غم زماں و زمیں کا سوال، ’’دھوپ اور چھاؤں‘‘ میں سمے سمے کا دھیان، ’’زندگی اے زندگی‘‘ میں ناچتی صدیوں کا آہنگِ قدم، ’’ہری بھری فصلو‘‘ میں دورِ زماں کے لاکھوں موڑ اور قرنوں کے بجھتے انگار، ’’ریوڑ‘‘ میں وقت کی پہنائیاں، ’’حرفِ اوّل‘‘ میں ناچتی صدیاں اور گھومتے عالم، ’’دنیا سب کچھ تیرا‘‘ میں صدیوں کے گارے میں گندھی ہوئی دیوار ’’صدا بھی مرگِ صدا‘‘ میں پیہم کراہتی صدیوں کی بے صدا گونج ’’دوام‘‘ میں بل کھاتے جہان اور ’’صاحب کا فروٹ فارم‘‘ میں وقت کی پینگ، غرض وقت کا تصور کسی نہ کسی شکل میں امجد کے یہاں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ یہ موضوع نہایت غیرمحسوس انداز سے اُن کی شعری کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے۔


تصورِ وقت کے تناظر میں رچرڈایلڈنگٹن کی ترجمہ شدہ نظم ’’وقت‘‘ خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ نظم وقت کی کلیت کا تصور لیے ہوئے ہے جس کے اندر ہزاروں ادوار دائروں کی صورت رقص کرتے رہتے ہیں۔ یعنی یہ وقت کا ایک ایسا تصور ہے جسے ماضی، حال اور مستقبل کے زمانی تعین سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ اس میں گزری باتیں اور آنے والے واقعات سبھی بیک وقت وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ وقت کی ایک تیز لہر میں دن، سال اور زمانے سبھی بیک وقت زندہ اور رواں ہیں۔ یہ تصور ایک ایسی پہیلی ہے جسے ہم صرف اپنے طور پر محسوس کر سکتے ہیں، بیان یا واضح نہیں کرسکتے۔ یہ امر غورطلب ہے کہ مجیدامجد نے اس نظم کو ترجمہ کے لیے کیوں چنا؟ اس سے پہلے وہ وقت کے تسلسل میں لمحۂ حال کو زندگی کا نچوڑ سمجھتے ہیں۔ پہلے نظم کے چند بند دیکھیں:

وقت ہے اک حریمِ بے دیوار

جس کے دوار آنگنوں میں ، سدا

رقص کرتے ہوئے گزرتے ہیں

دائروں میں ہزار ہا ادوار

بیتی بات اور آنے والی آن

امرِ امروز اور فرِ فردا

سب زمانے ، تمام عرصۂ دہر

وقت کی ایک تیز لہر کی عمر

کل وہ سب کچھ تھا ، جو کچھ آج بھی ہے

آج جو کچھ ہے ، اس زمانے میں تھا
جب وہ سب کچھ کہ جس نے ہونا ہے
ہو چکا تھا ، یہ کھیل ہونی کے

لاکھ قرنوں کے ان قرینوں میں

نہ کوئی دن نہ سن نہ یوم نہ عصر

صرف اک پل ، بسیط ، بے مدت

اپنے بھیدوں کی حد میں لا محدود

غور کیا جائے تو یہ نظم مجیدامجد اور ان کے تصورِ وقت کو اپنے فلسفیانہ انداز اور خیالات سے بہت متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسے ترجمہ کے لیے چنا۔ دوسری اہم بات یہ کہ نظم میں بیان کردہ تصورات کے پیشِ نظر جو لایعنیت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کے اثرات کو بھی مجیدامجد نے کافی حد تک قبول کیا اور آنے والی نظموں پر اس کے اثرات بھی پڑے مثلاً نظم ’’سانحات‘‘ میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں بے شمار واقعات رونما ہو سکتے ہیں مگر کوئی واقعہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ ایک واقعہ کئی واقعات کے منطقی ربط ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس طرح زندگی بہت سی حقیقتوں کا مرقع ہے یہ تمام حقیقتیں انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی اپنے سچ ہونے کا جواز رکھتی ہیں لہٰذا زندگی اور حقیقت کو کسی بھی زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ اور بات کہ کوئی شخص اس کا ادراک کس طرح کرتا ہے؟ یہ انتخاب فرد پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ یوں ’’یہاں وہی ہے جو اعتبار کیا‘‘ والامعاملہ درپیش آتا ہے۔


چاہو تو واقعات کے ان خرمنوں سے تم

اک ریزہ چن کے فکر کے دریا میں پھینک دو

پانی پہ اک تڑپتی شکن دیکھ کر ہنسو

چاہو تو واقعات کی ان آندھیوں میں بھی

تم یوں کھڑے رہو کہ تمہیں علم تک نہ ہو

طوفاں میں گھر گئے ہو کہ طوفاں کا جزو ہو

گویا وقت کے اندر بے شمار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، اب یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ وقت کے دھارے میں سے کس واقعہ کو سچ جان کر چن لیتا ہے۔
اس کا اعتبار ہی اس کی سچائی کا جوازہے۔ وقت کو محسوس کرنے اور زمینی تناظر میں وقت کے گزرنے کا ادراک کرنے کے حوالے سے مجیدامجد کی ایک نظم ’’بھائی کوسیجن اتنی جلدی کیا تھی‘‘ نہایت دلچسپ حقائق پر مبنی ہے۔ اس نظم میں انہوں نے فلسفیانہ اور سائنسی حقائق کو شاعرانہ انداز میں نہایت دلکشی سے پیش کیا ہے۔ اس نظم کا پس منظر یہ ہے کہ ستمبر ۱۹۶۸ء میں روس کے خلائی جہاز سپٹنک نے تاریخ میں پہلی مرتبہ چاند کے مدار میں گردش کی تھی، یہ سورج گرہن کا وقت تھا یعنی چاند، زمین اور سورج کے عین درمیان میں آ گیا تھا اور سپٹنک چاند کے مدار میں محو گردش تھا۔ بہت سے لوگ اپنی دُور بینوں کے ذریعہ دن ڈھلتے ہی خلائی جہاز کا نظارہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مجیدامجد اس خلائی جہاز کو ’’رکشا‘‘ کہہ کر مخاطب ہوئے ہیں۔

بھائی اتنی جلدی کیا تھی۔۔۔
دن ڈھلتے ہی ہم تو دُور نگر چشمے اپنی آنکھوں سے لگا کر ، بیٹھ گئے تھے، دیکھیں
کب سورج کے تھال پہ آ کر، ٹھہرے، تھوڑی دیر کو، کالے چاند کا لرزاں دھبا
ہم یہ آس لگائے بیٹھے تھے، دیکھیں کب چاند کے گرد اچانک چک چک چکراتا
گزرے وہ چھوٹا سا اِ ک رکشا
سورج کے چمکیلے گول کنارے کی پٹڑی پر چلتا، گھن سے اوجھل ہوتا
چکر کاٹ کے سامنے آتا ، دور سے دِکھتا، رکشا

چونکہ یہ سورج گرہن کا وقت تھا اس لیے مجیدامجد نے چاند کو سورج کی آنکھ میں کالی پتلی قرار دیا اور شاعر کی آنکھ یہ منظر چشمِ تخیل میں دیکھ رہی تھی کہ تین کرے ایک ہی سیدھ میں آ چکے ہیں یعنی ریاضیاتی وقت کے حامل تین کرے، سورج، زمین اور چاند ایک قطار میں موجود تھے۔

دل ہی دل میں ہم کہتے تھے، دیکھیں کیسا ہو یہ تماشا
وہ سورج کی آنکھ اور اس میں چاند اک کالی پتلی، اور پھر اُس پتلی کے گرد لڑھکتا
اک وہ سایہ
پھر یہ سب کچھ عکس بہ عکس ہماری آنکھ کی پتلی میں بھی
اک پل کے طور پر گھومنے والے تین کرے_____ اوہو اب تو آنکھیں بھی دکھتی ہیں

مجیدامجد نے جہاں ریاضیاتی وقت کے حامل تین مختلف کروں کو ایک سیدھ میں دیکھا ہے وہاں ان کے ریاضیاتی زمانوں کو بھی یک جا کر دیا ہے حالاں کہ زمین، چاند یا دیگر سیاروں پر وقت کا گزرنا مختلف انداز میں ہوگا۔ زمین پر ماہ و سال کا تعین مشتری یاپلوٹو کے ماہ و سال سے قطعی مختلف ہے مگر مجیدامجد نے تین کروں کے زمانوں کو ایک خاص وقت میں (گرہن کے وقت میں) ایک طرح کا بنادیا ہے۔



دیکھیں گردشِ دوراں کے دوران، تمہاری سواری پھر کب گزرے، ان راہوں سے
ایسے میں ، جب ایک سیدھ میں تین کرے اور تین زمانے____
اس دن ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے اور اس دن ہم تو لوگوں کا کہا مانیں گے

گویامجیدامجد نے ایک کائناتی وقت کے تعین کو تخیل میں زندہ کیا ہے۔ سلیمان صدیق لکھتے ہیں کہ



’’دراصل مجیدامجد کی یہ نظم کائناتی وقت (Cosmic Time ) کے تناظر میں شاعر کی ذہنی وسعت کی آئنہ دار ہے۔ اس نظم کا کمال یہ ہے کہ بیک وقت سائنسی، فلسفیانہ اور ادبی نقطہ ہائے نظر کا مرکب ہے۔ اس لیے وقت کا ایک خالص (Pure ) تصور اس نظم کی کل کائنات ہے۔‘‘



وقت کے مترادفات میں مجیدامجد نے ’’زمانے‘‘ کے لفظ کو بہت زیادہ استعمال کیا ہے ۔ زمانہ ان کے یہاں فرد، حیات اور کائنات کا انفرادی اور اجتماعی حوالہ بنتا ہے۔ محبتیں، نفرتیں، تعمیر، تخریب، محفل، تنہائی، حدود، لامحدود، دیکھے، اَن دیکھے، لمحے، صدیاں اور نہ جانے کتنے بے شمار عکس ہیں جو زمانے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ زمانہ جاری و ساری ہے، ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، غرض زمانہ وقت کے مترادف کے طور پر اپنا شعری اظہار پاتا ہے اور اس میں پل، لمحہ، سن ، سال، صدی اور دنیا، جہان کے روپ میں سروپ ہوا ہے۔
بشکریہ :"خیابان"
Reply With Quote