View Single Post
  #2  
Old Tuesday, June 19, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Majeed Amjad

خود نگر اور تنہا شاعر۔۔۔مجید امجد

بعض ادیب اپنے دور میں دیوقامت گردانے جاتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے بعد لوحِ زمانہ سے ان کی شبیہ مٹتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد ان کا نام و نشان بھی نہیں رہتا۔

اس کے برعکس جوں جوں وقت گزر رہا ہے، اپنے دور میں گمنامیوں کے دھندلکے میں کھوئے ہوئے مجید امجد کے قد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کا شعر ہے:

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

زندگی میں تو شاید مجید امجد کی طرف کم ہی دیکھا گیا، لیکن ان کے انتقال کے بعد معاشرے کے عام دستور کے مطابق مجید امجد کی عظمت کو پہچانا گیا، حتیٰ کہ 2000ء میں لاہور سے شائع ہونے والے رسالے ’کاغذی پیرہن‘ کی طرف سے کیے جانے سروے کے مطابق مجید امجد کو بیسویں صدی کاسب سے بڑا نظم گو شاعر قرار دیا گیا۔

عام قارئین تو مجید امجد تک نہیں پہنچ سکے، لیکن ناقدین شروع ہی سے مجید کے فن کے گرویدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً سبھی بڑے نقادوں نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اور متعدد رسائل مجید امجد نمبر نکال چکے ہیں۔ چناں چہ انور سدید لکھتے ہیں:

مجید امجد ان خوش قسمت شاعروں میں سے ہے جس نے اپنی زندگی میں اپنے متعدد معاصرین کی طرح شہرت اور دولت کی چوہا دوڑ میں حصہ نہیں لیا، نہ کسی سرکاری دربار میں حاضری دی۔ نہ کسی تمغے یا ایوارڈ کے لیے تعلقات ہموار کیے، نہ اخباری سطح پر مہم چلائی لیکن وفات کے بعد جب وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں رہا۔ تو شہرت پر افشاں ہو کر اس کے پیچھے دوڑنے لگی، اس کی عظمت کے اعتراف کا حلقہ وسیع ہونا شروع ہو گیا اور یہ نقطہ سے بڑھ کر قوس میں تبدیل ہوا اور پھر دائرہ در دائرہ پھیلتا گیا۔

مجید امجد کی پیدائش 29جون 1914ءکو جھنگ میں معمولی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے ابتدائی حالات بڑے ہی ناخوشگوار تھے، اس لیے ان کی زندگی میں دشواریاں ہی دشواریاں تھیں۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے جھنگ کے مدرسہ اور اسکول میں حاصل کی تھی۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے تھے۔ جھنگ میں واپسی کے بعد ایک ہفتہ وار اخبار ”عروج “ سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن 1939ءمیں انگریزوں کے خلاف ان کی ایک نظم شائع ہونے پر انہیں اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔

اسی زمانے میں انھوں نے ‘شاعر‘ کے نام سے ایک نظم لکھی تھی، جس کاایک بند کچھ یوں تھا:

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا

ساحر ہی پر بس نہیں، بلکہ مجید امجد کی شاعری کی جھلک جدید دور کے کئی شعرا کے ہاں بھی نظر آتی ہے۔ بلکہ بعض نے تو مجید امجد کی کچھ نظموں پر ہاتھ صاف کر کے اپنی شہرت کے مینار کھڑے کر لیے ہیں۔ مثال کے طور پر مجید امجد کے ابتدائی دور کی ایک نظم کے چند مصرعے ملاحظہ فرمائیے:

کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چُپ چاپ نکل جاتا میں
صُبح کو گرتے تری زُلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سےگھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں

’عروج‘ چھوڑنے کے بعد مجید امجد کو جھنگ ڈسٹرکٹ بورڈ میں کلرکی مل گئی۔ انہوں نے خالہ کی بیٹی سے شادی کی تھی جو اسکول میں ٹیچر تھی۔ لیکن یہ شادی یکسر ناکام ثابت ہوئی۔ بلکہ اس کے سبب ان کے ذہنی خلجان میں اضافہ ہو تا گیا۔ بعد میں مجدن امجد محکمہٴ غذا سے وابستہ رہ کر مختلف شہروں میں تعینات رہے۔

مجید امجد کی زندگی میں ہی ان کا شعری مجموعہ ”شبِ رفتہ“ شائع ہوا تھا۔ جس کا پیش لفظ انہوں نے منظوم لکھا تھا۔ اسے 1958ءمیں نیا ادارہ لاہور نے شائع کیا تھا۔ تاہم اس کی اشاعت کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے ردِ عمل پر مجید امجد ناخوش تھے، جس کے بعد انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی مجموعہ شائع نہیں کروایا۔

ان کی بے وقت موت کے بعد بقیہ کلام جاوید قریشی نے 1976ءمیں ”شب رفتہ کے بعد “کے نام سے شائع کاع تھا۔ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا نے مکمل کلام ”کلیات مجید امجد کے عنوان سے سنہ 1979ءمیں شائع کیا۔ تاج شہید نے رسالہ ” قند “ کا مجید امجد نمبر بھی نکالا تھا۔ اس کے علاوہ دستاویز میں ایک خصوصی شمارہ مجید امجد کے نام وقف کیا۔ چند دوسرے ادبی رسائل نے بھی ان پرگوشے شائع کیے۔ لیکن نامور ناقد وزیر آغا کویہ تخصیص حاصل ہے کہ انہوں نے مجید امجد پر پہلی تنقیدی کتاب ”مجید امجد کی داستانِ محبت “کے نام سے شائع کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مجید امجد کی زیادہ تخلیقات وزیر آغا کے رسالہ ”اوراق“ میں ہی شائع ہوئی تھیں۔

وزیر آغا ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

شاعر کے باطن کی دنیا خارج کے مظاہر سے منسلک اور ہم آہنگ ہے مگر یہ ہم آہنگی عافیت کوشی یافراق کے مماثل نہیں۔ بلکہ شدید جذبے کی پیداوار ہیں۔ جو جزو کو کل سے مربوط کرتا ہے اور جس کے دباؤ کے تحت شاعر اپنی انا کی دیواروں کو عبور کر کے وسیع تر زندگی سے ہمکنار ہوجاتا ہے اور اس ربط باہم کو دریافت کر لیتا ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے۔

دراصل مجید امجد کی شاعری وزیر آغا کا مستقل موضوع رہی ہے اور وہ ان کی شاعری کو توازن کی مثال مانتے ہیں۔ مجید امجد پر کتاب لکھنے سے قبل انہوں نے اپنی معرکہ آرا کتاب ’ اردو شاعری کامزاج میں‘ مجید امجد کو انفرادیت کا مظہر قرار دیا تھا۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے مجید امجدکی شاعری میں استعمال ہو نے والی تمام علامتوں کا جائزہ لیا ہے اور ان کے مفاہیم کو پیش کیا ہے۔ مجید امجد کے یہاں جو الفاظ استعمال ہو تے ہیں ان میں اکہرا پن نہیں ہے بلکہ تہ در تہ معنی پوشیدہ ہیں، اسی لیے شاعری میں استعمال ہونے والے الفاظ آنکھ، خوشبو ‘ سرسراہٹ، لمس اور زندگی کے لاتعداد موضوعات کے چمکتے ہوئے ذرات کی طرح شامل ہو کر لو دینے لگتے ہیں اور آخر میں اس وجود کا علامتی حوالہ جا بجا اپنی جھلک دکھاتا ہے۔

حالانکہ مجید امجد فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، ن م راشد جیسے منفرد لب و لہجے کے شعرا کا ہم عصر ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے متقدمین اور معاصرین میں پہلا شاعر ہے جس نے عرب وعجم کی شعری ساختیات سے منہ موڑا اور اردو زبان میں مقامی بولیوں کے رچاؤ کو پیوست کر دیا۔ ہمارے تمام ہی شعراء عربی و فارسی شاعری کے خوشا چںک رہے ہیں، وہی تراکیب وہی تشبیہات اور علامات استعمال کرتے رہے ہیں لیکن مجید امجد نے انہیں یکسر تبدیل کر دیا اور دہلی اور لکھنئو کی ٹکسالی بولی سے باہر نکال کرسائنسی دور میں لاکھڑا کیا۔ علی تنہا مجدہ امجد کی شاعری پر لکھتے ہیں:

نئی شاعری میں متنوع تجربات کا بازار مجید امجد سے پہلے بھی گرم تھا لیکن وہ تمام گذشتہ تجربوں کا رس اورنچوڑ صرف اس کی شاعری میں شکل پذیر ہوا۔ اس کی شاعرانہ عظمت کے ہزار پہلو ہیں، پہلی بات تو یہی لیجئے کہ اس نے نحوی و صرفی، باریکیوں کے بارے میں گہرا سوچا۔پھر ایک ایسی زبان کی بو باس کو راہ دی جو خالص پاکستانی اردو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فن پاروں میں زمین کی مہک نمایاں ہے لیکن یہ خالی خولی زبان کا رچاؤ ہی نہیں اس کی زبان کے پیچھے واردات کا شعلہ ایسا تپاں ہے کہ خیال بلیغ اور سانس لیتا ہوا محسوس ہوتاہے۔

مجید امجد کی شعری کائنات میں کافی تجربے ہیں، ان کی غزلوں کے اشعار میں بھی نیا پن ہے اور نظمیں تو بہر حال نئے ذائقہ سے آشنا کرتی ہیں۔
غزل کے کچھ اشعار:

میرے نشان قدم دشت غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا کام
پہروں باتیں کرتے رہنا دنیا کی

پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چتھڑاے اوڑھے
نشیب زینہ ایام پر عصا رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا مری کوشش میں انتہا رکھتا

یہ انجانا شہر، پرانے لوگ، اے دل ،تم یہاں کہاں
آج اس بھیڑ میں اتنے دن کے بعد ملے ہو کیسے ہو

لیکن مجید امجد کی اصل شناخت غزل نہیں، بلکہ نظم ہے،جو نئی حسیت اور نئی معنویت سامنے لاتی ہے۔ مثال کے طور پر چند نظموں کے ٹکڑے:

وطن، ڈھیر اک اَن منجھے برتنوں کا
جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بدر ڈھونڈھتی ہیں
وطن، وہ مسافر اندھیرا
جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ
شاداب شہروں میں رک کر
کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے
(پہاڑوں کے بیٹے)

مجھے خبر بھی نہ تھی اور اتفاق سے کل
میں اس طرف سے جوگزرا وہ انتظار میں تھے
میں دیکھتا تھا اچانک یہ آسماں پہ کرے
بس اک پل کو رکے اور پھر مدار میں تھے
(جہاں نورد)

مجید امجد کی چند شاہ کار نظموں میں پنواڑی، کنواں، آٹوگراف، بس سٹینڈ پر، امروز، کرسمس، مقبرہٴ جہانگیر، پہاڑوں کے بیٹے، صاحب کا فروٹ فارم، منٹو، فرد، جلوسِ جہاں وغیرہ شامل ہیں۔

دراصل مجید امجد کے اپنے تجربات ہیں اور ان تجربات کو انہوں نے اپنی زبان میں ڈھالا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:

یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں
یہ آہوں سے معمور دو چارشامیں
انہیں چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے
وہ جوکچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے
(امروز)

11مئی 1974ء کو مجید امجد کا نہایت کس مپرسی کے عالم میں انتقال ہو گیا۔ جس کی تفصیل ایک اخبار کی خبر کے مطابق یوں ہے:

”ممتاز شاعر مجید امجد فرید ٹاؤن میں اپنے گھر پر مردہ پائے گئے۔ مرحوم کی میت فرش پر پڑی تھی کہ ایک شخص نے کھڑکی میں سے دیکھا جس پر دو افراد دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے تو انہیں مردہ پایا۔‘‘

اس پر وزیر آغا نے لکھا تھا:

دیکھو ہماری بدقسمت قوم بہترین تخلیقی صلاحیت رکھنے والے اپنے جیالے سپوتوں سے کیسا سلوک کرتی ہے کہ وہ تنہائی، بے بسی اور کسم پرسی کے عالم میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں مگر اس پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو تا پھر ایک صبح چند راہگیر کسی بند کمرے کی کھڑکی میں سے جھانکتے ہیں اور انہیں فرش پر کوئی لاش نظر آتی ہے۔ فرش پرلاش ؟ کسی بے نام اور بے چہرہ فقیر کی نہیں جو سردیوں کی رات میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر گیا ہو بلکہ اپنے وطن کے اس شاعر کی لاش جسے آنے والی نسلیں اس صدی میں ابھرنے والی دو تین منفرد آوازوں میں سے ایک قرار دیں گی۔ “
آخر کو تو حالات کے ستائے ہوئے لوگ تھے اس لیے یہ کہتے ہوئے چلے گئے:

وار دنیا نے کیے مجھ پر تو امجد میں نے اس گمساآن میں
کس طرح جی ہار کر رکھ لی نیامِ حرف میں شمشیرِ دل


Source: Voice Of America
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Arshia Awan (Sunday, February 23, 2014), rao saadia (Wednesday, November 21, 2012)