سنو! یہ وقت رخصت ہے، سکوت سفر طاری ہے
ختم عمروں کا زر، باقی لمحوں کی ریزگاری ہے
سنو! آنکھیں تو گم صم ہیں، دلوں میں آہ و زاری ہے
سنو! یہ ضبط کا موسم نہیں ہے، بے اختیاری ہے
سنو! یہ آس کی ڈوری اٹھا لو ہاتھ سے میرے
میرے ہاتھوں میں کچے دھاگوں کی بےاعتباری ہے
سنو! میں خواب اب بھی دیکھتی ہوں دل کے کہنے سے
میری آنکھوں میں اب بھی زخم، دل میں بیقراری ہے
سنو! یہ راز بھی سن لو، کہ دل کا کھیل جتنا تھا
یہ بازی تم نے جیتی ہے، ہمیشہ ہم نے ہاری ہے
سنو! تم ساتھ رہتے تھے میری ہر اک سانس میں
تمہارے نام کرتے ہیں، جہاں جتنی گزاری ہے
سنو! آنکھوں سے پڑھ لینا وہ ساری ان کہی باتیں
کوئی پوچھے تو کہہ دینا، بہت ہی رازداری ہے
سنو! پلکوں پہ جتنے خواب تھے، ان کو اٹھا لینا
میری آنکھوں پہ ان کا بوجھ، میری طاقت سے بھاری ہے
سنو! دوری سے گھبرا کر ہمیں آواز دے لینا
مگر یہ رابطہ دل کا، بشرطِ استواری ہے
سنو! ہم لوٹنے والے نہیں، سب کہہ لو سن لو آج
بہت ہی دور جانا ہے، بڑی لمبی اڈاری ہے
سنو یہ وقت رخصت ہے، سنو یہ حرف آخر ہے
سنو! یہ درد ہجر کا ہر اِک ہجرت سے کاری ہے