View Single Post
  #3  
Old Friday, October 05, 2007
Abdullah
Guest
 
Posts: n/a
Default The spirit of freedom

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مِل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہِ غمِ دِل
جواں لہُو کی پُراسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پُکارتی رھیں باہیں، بدن بُلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رُخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نُور کا دامن
سُبک سُبک تھی تمّنا دبی دبی تھی تھکن

سُنا ہے ہو بھی چُکا ھے فِراقِ ظُلمتِ نُور
سُنا ہے ہو بھی چُکا ہے وصالِ منزلِ گام
بدل چُکا ہے بہت اہلِ درد کا دستُور
نشاطِ وصل حلال و عزابِ ہجرِ حرام
جِگر کی آگ، نظر کی اُمنگ، دِل کی جلن
کسی پہ ہجراں کا کوئی اثر ہی نہیں
کہاں سے آّئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کُچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانئِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دِل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نھیں آئی

(فیض)

Last edited by Last Island; Friday, October 05, 2007 at 07:59 AM.
Reply With Quote