دل ہی ہے نہ کہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آۓ کیوں۔
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاۓ کیوں؟
دیر نہیں ، حرم نہیں ، در نہیں ، آستاں نہیں۔
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم،غیر ہمیں اتھاۓ کیوں؟
جب وہ جمالٍ دلٍ فروز، صورتٍ مہرؤ نیم ٍو روز۔
آپ ہی ہو نذرانہٍ سوز،پردے میں مونہہ چھپاۓ کیوں؟
دشناۓ غمزہ جانٍ ستاں، نواکٍ نازٍ بے پناہ۔
ترا ہی عکسٍ ُرخ سہی،سامنے ترے آۓ کیوں؟
قیدٍ حیات و بندہ و غم،اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں؟
حسں اور اس پہ حسنٍ زان راہ گئی بلحوس کی شرم۔
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزماۓ کیوں ؟
واں وہ غرورٍ عزو ناز، یاں یہ حجابٍ پاسٍ وضع۔
راہ میں ہم ملیں کہاں ،بزم میں وہ بلاۓ کیوں؟
ہاں نہیں وہ خدا پرست ، جاؤ بے وفا سہی
جسکو ہو دین و دل عزیز،اسکی گلی میں جاۓ کیوں؟
غالبٍ خستہ کہ بغیر کونسے کام بند ہیں۔
روئیے زار زار کیاا، کیجیۓ ہاۓ ہاۓ کیو ں؟
مشہور مجدید ٍ دین وملت حضرت احمد رضا سید (رح )نے اسی قا فیے اور ردیف کو فا لو کرتے ہوۓ اک دل افزوں نعت کہی جو دل کو چھوتے ہوۓ آپ کو قیفیتٍ وجد میں پہنچا دیتی ہے۔
نعت شریف :
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھاۓ کیو؟۔
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جاۓ کیوں؟۔
رخصتٍ قا فلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھاۓ کیوں؟
سوتے ہیں ان کے ساۓ میں کوئی ہمیں جگاۓ کیوں؟
ھم تو ہیں آپ دل فگار ،غم میں حسیں ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار ، خون ہمیں رلاۓ کیوں
اب تو نہ روک اے غنی، عاد تیں سب بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمہ تر کھلاۓ کیوں
یادٍ حضور(ﷺ) کی قسم غفلتٍ عیش ہے ستم۔
خوب ہے قیدٍ غم میں ہم،کوئی ہمیں چھڑاۓ کیوں؟
یا تو یو نہی تڑپ کے جائیں یا وہ ہی دام سے چھڑاۓ
منتٍ غیر کیوں اتھائیں کوئی ترس جتاۓ کیوں
جانٍ ہے عشقٍ مصطفی(ﷺ)روز فضوں کرے خدا
جسکو ہو درد کا مزا ،نازٍ دوا اٹھاۓ کیوں ؟
دیکھ کہ حضرتٍ غنی پرے فقیر بھی
چھائی ہے اب چھونی حشر آنا جاۓ کیوں۔
وہ جا نہ تھے تو کچھ نہ تھا،وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہیں۔
جان ہے وہ جہاں کی ، جان ہے تو جہاں ہے ۔
۔
ہے تو رضا (رح) نرا ستم جرم پے گر لجاۓ ہم۔
کوئی بجاۓ سوزٍ غم ،سازٍ طرب بجاۓ کیوں
__________________
"Wa tu izzu man-ta shaa, wa tu zillu man-ta shaa"
|