SoochA key Ek HAmd KAahooN!
کئی روز سے سوچا تھا اک حمد کہوں۔
گزر گۓ کئی روز کہ میں اک حمد کہوں۔
محوٍ سوچ میں صبح گزر ری میرے ایام تلخی
کہ لکھوں نالہٍ فریادٍ دل یا ٌپھر کہ حمد کہوں۔
لکھا جب پہلا حرفٍ دل اک کیف کے عالم میں
رو دیا دلٍ خستہ کہ مٰیں نے اک حمد کہی۔
وہ دن تھا ہا مخملٍٍ ٍبدن پہ ماندٍ موم سلگتا میرا دل۔
کہا حرف حرف اس کے حضور کہ جلتا ہے میرا دل،
تشنہ مہ ہوں کیا اب میں حرف لکھوں ۔
کیا سوختہ جاں ہے تو کیا حرف لکھوں۔
روشن میرا سینہٍ دل تھا ، نور کا احوال لکھوں۔
اہام گزرتے تھے یاد میں تری کیا یہ حال لکھوں۔
دل وجدٍخوشی ملں مٰیں تھا بے قرار
کیا مست دن تھے ان کا احوال لکوں۔
ارے جانے دو کچھ نہ کہو کہ وہ شادی مرگ
آذاں کرتا تھا دل نمازٍ عشق سے پہلے۔
اب حال ہے یہ کہ نامہ بر آپہنچا میرے اعمال ہے کیا۔
جھک گیا شرم سے جی کی میرا حال ہے کیا۔
کرم تھا میرے حال پر وہ کرم اب تو نہیں ۔
ہاں میں بے وفا ! مگر شرہکٍ زات تو نہیں۔
میرے عصییاں ہے جو گنو تو بے شمار۔
کہ اب جو ہے میرا دل تو بے قرار تو کیا۔
میں گروں بھی تو مجھے زخم ہے کہاں۔
میرا مسہحا ہے آن آں مجے میں پسا ہوا۔
کہاں مالک نے ہوں قریب شہ رگ سے قریب تر۔
جو سمجھ گئے اس زاز کو وہ ہیں خوش نصیب تر۔
گر ڈھوبڈو مجھے تو کرو جو تم یہ اسطرح
مٹا کر آئینہٍ دل پہ پڑی گرد کے تلے جلوہٍ دید کر۔
میں نہیں ،میری ذات نہیں تجھ سے عزیز تر
میں پھر بھی ہوں کہاں تجھ سے قریب تر۔
میرا رنگ تو اک رنگ ہے جو ہے تو اک عکس پر
چمکا اسطرح اسکو کی شبیہ ہو قزح سے قریب تر۔
رو چکے میرے عصیاں اے نور بے ضمیر ہے تو۔
ہے تو بہت بے وفا پھر بھی قریب ہے تو ۔
__________________
"Wa tu izzu man-ta shaa, wa tu zillu man-ta shaa"
|