سفرِ درد
سطح سحر، سفینہء غم، جوئے لالہ گوں
کنجاہ کی گلی کا سکوتِ اجل سکوں
قاتل کا وار، سینۂ صدلخت موجِ خوں
اِک صاحبِ قلم پہ جو گزری میں کیا کہوں
نوک اس کے دل کو چیر گئی جس کٹار کی
اس پر گرفت تھی ستمِ روزگار کی
اک ہات بڑھ کے شانۂ دیوار پر رکھا
ہائے وہ چند ڈولتے قدموں کا فاصلہ
اِک گام اور جادۂ دوراں سمٹ گیا
اِک سانس اور سب سفرِ درد طے ہوا
اِک آخری تڑپ جسدِ لرزہ گیر کی
مٹی پہ ایک قوس لہو کی لکیر کی
اِک زندگی کراہتے لمحوں میں ڈھل گئی
اِک شمع موجِ اشک پہ بجھ بجھ کے جل گئی
اِک بے گناہ پہ ظلم کی شمشیر چل گئی
خونی انی پہ ایک جوانی مچل گئی
ہے بھی یہاں غریب کی ہستی کا کوئی مول
میں پوچھتا ہوں مدعیٔ عدل کچھ تو بول
شاعر: مجید امجد