View Single Post
  #2  
Old Sunday, October 12, 2014
qayym's Avatar
qayym qayym is offline
Senior Member
 
Join Date: Jan 2008
Location: Wah Cantt
Posts: 569
Thanks: 1,082
Thanked 843 Times in 342 Posts
qayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of light
Default

دوسرا درویش سر کھجاتا اور سگریٹ میں چرس بھرتا ہوا یوں گویا ہوا صاحبو یہ فقیر لاچار کہ ملک جسکا پنڈ دادنخان ضلع جہلم ہے ایک ماہ سے اس دھرنے میں موجود ہے- والد گرامی اس سیاہ کار کے محکمہ زراعت میں پٹواری تھے اور بندہ ان کی پہلی اور آخری اولاد- طبیعت شروع ہی سے لا ابالی تھی اورشعروادب کا ذوق پایا تھا چنانچہ گاہ گاہ والد گرامی سے چھتر پریڈ بھی کراتا رہا - والد گرامی کی پندونصاح اور ضرب و شلاق کے طفیل کالج کا منہ دیکھ ہی لیا- کالج کے پہلے ہی دن ایک حسینہ جانفزا، پری وش کہ حسن جس کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا، پر نگاہ پڑی اور وہیں ہزار جان فدا ہو گیا- دل کا عالم ہی بدل گیا شب تھی کہ بستر پر لوٹتے اور کشور کمار کو سنتے گزرتی اور دن اس فتنہ حسن کے شوق دیدار میں بھٹکتے گزرتا- گاہ گاہ شام پگاہ اس عجوبہء حسن کے خیالوں میں غرق رہنے لگا۔

واقفان حال سے بس اتنا معلوم پڑا کہ یہ خزانہ حسن کہ نام جس کا غزالہ ہے, چوہدری عبدالشکور کلرک محکمہ انہار کے خاندان کی زینت و مالا ہے اور حفاظت اس زہرہ جبین کی ایک شیش ناگن کرتی ہیں جو رشتے میں اسکی خالہ ہے- مصاحبو !! عشق اپنے ساتھ رقیبان روسیاہ کی فوج لاتا ہے چنانچہ یہی ہوا اور چہار دانگ عالم سےکئی بٹ، رانے، ٹوانے اور جٹ اس زہرہ جبین کے عاشق ہونے کے دعویدار نکلے اور یہ فقیر تلملا کے رہ گیا- انہی دنوں اس بندہ مبتلا پر تقدیر یوں مہربان ہوئی کہ کالج کا سالانہ مشاعرہ برپا ہوا- اس عاشق نامراد نے مشاعرے کے لیے ایسی غزل لکھی کہ حال دل کھول کے رکھ دیا- اس رات کو عشق کا بخار 106 ڈگری پہ پہنچ چکا تھا -چنانچہ عاشقوں کا سو سالہ پرانہ مجرب نسخہ آزمایا اور طویل نامہ محبت لکھا-

ایک واقف حال کہ نام جس کا صادق حسین بٹ تھا بعوض 500 روپے بمعہ سگریٹ پانی یہ نامہ اس ماہ رخ تک پہنچانے پر راضی ہوا- اور اگلے دن دستی جواب بھی لا حاضر کیا- نامہء محبوب ہاتھ میں آیا تو خوشی ومسرت کا ٹھکانہ نہ رہا- نامہ تھا کہ جواب آں غزل اور محبت کا پیمان تھا - لگتا تھا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئ-آخر میں لکھا تھا کہ عشق کو آزمانا ہے تو اسلام آباد دھرنے میں جانا ہے -صادق بٹ نے یہ عقدہ کھولا کہ غزالہ تو کپتان کی نہ صرف پرانی فین ہے بلکہ کالج میں شوکت خانم کےعطیات بھی اکٹھے کرتی ہے- پہلی نظر میں تو معمولی سی شرط لگی کہ عشق کو سیاست سے کیا احوال اور عشق میں عطیہ بن جانا بھی باعث افتخارو استنباط ہے پھر والد گرامی کا خیال آیا جو 24 قیراط کے پٹواری تھے تو ماتھا ٹھنکا- چنانچہ رات کے اندھیرے میں اپنے ہی گھر نقب لگائی اور جو جمع پونجی ہاتھ لگی زاد سفر سمجھ کر قصد اسلام آباد کا کیا اور ڈی چوک آن دھمکا - گھر سے بہتیرے فون آئے کہ لوٹ آؤ معاف کردیں گے،, مگر وہ عشق ہی کیا جو پیچھے پلٹ کے دیکھے -15 دن خوب رقص کیا کہ عشق موذی ہمیشہ عاشقوں کو نچاتا ہے

آخر ایک واقف حال کا فون آیا کہ اے خانما برباد ! تو انقلابی مجنوں بن کر اس ہنگام۔۔۔ خانہ میں بیٹھا ہے اور ادھر صادق بٹ تیری غزالہ کے ساتھ عقد کر کے گوجرانوالا میں ہنی مون منا رہا ہے -صاحبو یہ سننا تھا کہ چکرا کے کنٹینر کی داہنی جانب گرا - ہوش آئی تو معلوم پڑا کہ دھرنا سراسر ایک دھوکا تھا -رقیب روسیاہ صادق بٹ نے محض راستے کا پتھر ہٹانے اور مجھ سے چھٹکارہ پانے کے لیے جھوٹا محبت نامہ گھڑا- خود غزالہ کو لے اڑا اور مجھے تبدیلی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ نہ جس کا سر ہے نہ پیر - میں یہاں آنسو گیس کے پیالے بھر بھر کے پیتا رہا اور وہ بدمعاش نون لیگ کا گلو بٹ میری دنیا ویران کر گیا --------واہ رے محبت ہائے رے جنون-----اب واپسی کے سارے راستے بند ہیں کہ والد گرامی قدر کٹر پٹواری ہیں اور یہ بندہ رو سیاہ گلے میں ترنگا ڈالے کئی بار ٹی وی کیمرے کے سامنے ناچ چکا ہے----کس منہ سے کس کس کو منہ دکھاؤں گا--- تو صاحبو کپتان کو تو شاید بنی گالا میں آسرا مل جائے اور شیخو کو نئی بھینس, لیکن یہ عاشق نامراد دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا-.....اتنا کہہ کر دوسرے درویش نے چرس کا گہرا سوٹا لگایا اور دھرنے میں والہانہ رقص کرنے لگا
__________________
Hai ghanimat kay israr-e-hasti sai hum
Bay khabr aaie hain, bay khabr jaien gain
Q A
Reply With Quote