View Single Post
  #5  
Old Thursday, December 06, 2007
Raz's Avatar
Raz Raz is offline
Senior Member
Qualifier: Awarded to those Members who cleared css written examination - Issue reason: CE 2009 - Roll no. 2638Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Elite CSP Medal: Members who previously received (CSP Award  and Member of the Year Award ) OR (CSP award + Gold Medal + Medal of Appreciation) are eligible for this award. - Issue reason: Member of the Year: Awarded to those community members who have made invaluable contributions to the Community in the particular year - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Sep 2007
Location: In the hearts of friends and heads of foes.
Posts: 1,858
Thanks: 2,166
Thanked 3,870 Times in 1,441 Posts
Raz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant futureRaz has a brilliant future
Default زکوٰة کے احکام

زکوٰة کے احکام
(۱۸۲۰)زکوٰة چند چیزوں پر واجب ہے۔
(۱)گیہوں(۲)جو(۳)کھجور(۴)کشمش(۵)سونا(۶)چاندی(۷)اونٹ (۸)گائے(۹)بھیڑبکری (۱۰)احتیاط لازم کی بنا پر مال تجارت۔
اگر کوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک ہو تو ان شرائط کے تحت جن کاذکر بعد میں کیا جائے گا ضروری ہے کہ جو مقدار مقرر کی گئی ہے اسے ان مصارف میں سے کسی ایک مد میں خرچ کرے جن کا حکم دیا گیا ہے۔
زکوٰة واجب ہونے کی شرائط
(۱۸۲۱)زکوٰة مذکورہ دس چیزوں پر اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب مال اس نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اور وہ مال انسان کی اپنی ملکیت ہو اور اس کا مالک آزاد ہو۔
(۱۸۲۲)اگر انسان گیارہ مہینے گائے، بھیڑ بکری،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک رہے تو اگرچہ بارہویں مہینے کی پہلی تاریخ کو زکوٰة اس پر واجب ہوجائے گی لیکن ضروری ہے کہ اگلے سال کی ابتداء کا حساب بارہویں مہینے کے خاتمے کے بعد سے کرے۔
(۱۸۲۳)سونے ،چاندی اور مال تجارت پر زکوٰة کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک پورے سال بالغ اور عاقل ہو ۔لیکن گیہوں،جو ،کھجور،کشمش اور اسی طرح اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکریوں میں مالک کا بالغ اور عاقل ہونا شرط نہیں ہے۔
(۱۸۲۴)گیہوں اور جو پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب انہیں گیہوں اور جو کہا جائے۔کشمش پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ ابھی انگورہی کی صورت میں ہوں۔کھجور پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب(وہ پک جائیں اور )عرب اسے تمر کہیں۔ لیکن ان میں زکوٰة کا نصاب دیکھنے کا وقت وہ ہے جب یہ خشک ہو جائیں اور گندم و جوکی زکوٰة دینے کا وقت وہ ہوتا ہے جب یہ غلہ کھلیان میں پہنچے اور ان(کی بالیوں ) سے بھوسا اور (دانہ)الگ کیا جائے،جبکہ کھجور اور کشمش میں یہ وقت وہ ہوتا ہے جب انہیں اتار لیتے ہیں۔اگر اس وقت کے بعد مستحق کے ہوتے ہوئے بلاوجہ تاخیر کرے اور تلف ہو جائے تو مالک ضامن ہے۔
(۱۸۲۵)گیہوں،جو،کشمش اور کھجور میں زکوٰة ثابت ہونے کے لئے جیسا کہ سابقہ مسئلے میں بتایا گیا ہے۔معتبر نہیں ہے کہ ان کامالک ان میں تصرف کر سکے۔پس اگر مالک غائب ہو اور مال بھی اس کے یا اس کے وکیل کے ہاتھ میں نہ ہو مثلاً کسی نے ان چیزوں کو غصب کر لیا ہو تب بھی جس وقت وہ مال اس کو مل جائے زکوٰة ان چیزوں میں ثابت ہے۔
(۱۸۲۶)اگر گائے،بھیڑ،اونٹ،سونے اور چاندی کا مالک سال کا کچھ حصہ مست (بے حواس) یا بے ہوش رہے تو زکوٰة اس پر سے ساقط نہیں ہوتی اور اسی طرح گیہوں،جو کھجور اور کشمش کامالک زکوٰة واجب ہونے کے موقع پر مست یا بے ہوش ہوجائے توبھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۲۷)گیہوں،جو کھجوراور کشمش کے علاوہ دوسری چیزوں میں زکوٰة ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مالک اس مال میں شرعاً اور تکویناً تصرف کر سکتا ہو۔پس اگر سال کے ایک قابل توجہ حصے میں کسی نے اس مال کوغصب کر لیا ہو یا مالک اس مال میں شرعاً تصرف نہ کر سکتا ہو تو اس میں زکوةٰ نہیں ہے۔
(۱۸۲۸)اگر کسی نے سونا اور چاندی یاکوئی اور چیز جس پرزکوٰة دینا واجب ہوکسی سے قرض لی ہو اور وہ چیز ایک سال تک اس کے پاس رہے توضروری ہے کہ اس کی زکوٰة دے اورجس نے قرض دیا ہواس پر کچھ واجب نہیں ہے۔ہاں اگر قرض دینے والااس کی زکوٰة دیدے تو قرضدار پرکچھ واجب نہیں۔
گیہوں،جو کھجوراور کشمش کی زکوٰة
(۱۸۲۹)گیہوں،جوکھجور اور کشمش پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ نصاب کی حد تک پہنچ جائیں اوران کا نصاب تین سو صاع ہے جوایک گروہ(علماء) کے بقول تقریباً۸۴۷کلو ہوتا ہے۔
(۱۸۳۰)جس انگور،کھجور،جو اور گیہوں پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو اگر کوئی شخص خود یا اس کے اہل وعیال اسے کھالیں یا مثلاً وہ یہ اجناس کسی فقیر کو زکوٰة کے علاوہ کسی اور نیت سے دیدے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار استعمال کی ہو اس پر زکوٰة دے۔
(۱۸۳۱)اگر گیہوں،جو کھجور اور انگور پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد ان چیزوں کا مالک مر جائے تو جتنی زکوٰة بنتی ہو وہ اس کے مال سے دینی ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص زکوٰة واجب ہونے سے پہلے مر جائے تو ہر وہ وارث جس کاحصہ نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ اپنے حصے کی زکوٰة خود ادا کرے۔
(۱۸۳۲)جو شخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰة جمع کرنے پر مامور ہو وہ گیہوں اورجو کے کھلیان میں بھوسا (اور دانہ) الگ کرنے کے وقت اور کھجور اور انگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰة کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر مالک نہ دے اورجس چیز پر زکوٰة واجب ہو گئی ہو وہ تلف ہو جائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
(۱۸۳۳)اگر کسی شخص کے کھجور کے درختوں،انگور کی بیلوں یا گیہوں اور جوکھیتوں(کی پیداور)کا مالک بننے کے بعد ان چیزوں پر زکوٰة واجب ہوجائے توضروری ہے کہ ان پر زکوٰة دے۔
(۱۸۳۴)اگر گیہوں،جوکھجور اور انگور پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد کوئی شخص کھیتوں اور درختوں کو بیچ دے تو بیچنے والے پر ان اجناس کی زکوٰة دینا واجب ہے اور جب وہ زکوٰة ادا کردے تو خریدنے والے پر کچھ واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۵)اگر کوئی شخص گیہوں،جو ،کھجور یاانگور خریدے اور اسے علم ہو کہ بیچنے والے نے ان کی زکوٰة دے دی ہے یا شک کرے کہ اس نے زکوٰة دی ہے یا نہیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے معلوم ہو کہ بیچنے والے نے ان پرزکوٰة نہیں دی تو ضروری ہے کہ وہ خود اس پر زکوٰة دے دے،لیکن اگر بیچنے والے نے اسے دھوکہ دیا ہوتو وہ زکوٰة دینے کے بعد اس سے رجوع کرسکتا ہے اور زکوٰة کی مقدار کا اس سے مطالبہ کر سکتاہے۔
(۱۸۳۶)اگر گیہوں،جو،کھجور اور انگور کا وزن تر ہونے کے وقت نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور خشک ہونے کے وقت اس حد سے کم ہوجائے تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۷)اگر کوئی شخص گیہوں،جواور کھجور کو خشک ہونے کے وقت سے پہلے خرچ کرے تو اگر وہ خشک ہوکر نصاب پر پوری اتریں تو ضروری ہے کہ ان کی زکوٰة دے۔
(۱۸۳۸)کجھور کی تین قسمیں ہیں:
(۱) وہ جسے خشک کیا جاتا ہے اس کی زکوٰة کا حکم بیان ہوچکا۔
(۲)وہ جو رطب(پکی ہوئی رس دار) ہونے کی حالت میں کھائی جاتی ہے۔
(۳)وہ جو کچی ہی کھائی جاتی ہے۔
دوسری قسم کی مقدار اگرخشک ہونے پر نصاب کی حد تک پہنچ جائے تو احتیاط مستحب ہے کہ اس کی زکوٰة دی جائے۔جہاں تک تیسری قسم کا تعلق ہے ظاہر یہ ہے کہ اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۹)جس گیہوں،جو،کھجور اور کشمش کی زکوٰة کسی شخص نے دے دی ہو اگر وہ چند سال اس کے پاس پڑی بھی رہیں تو ان پر دوبارہ زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔
(۱۸۴۰) اگر گیہوں، جو، کھجور اور انگور (کی کاشت) بارانی یا نہری زمین پر کی جائے یا مصری زراعت کی طرح انہیں زمین کی نمی سے فائدہ پہنچے تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر ان کی سینچائی (جھیل یا کنویں وغیرہ کے پانی سے) بذریعہ ڈول کی جائے تو ان پر زکوٰة بیسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۱)اگر گیہوں،جو،کھجور اور انگور(کی کاشت) بارش کے پانی سے بھی سیراب ہو اور اسے ڈول وغیرہ کے پانی سے بھی فائدہ پہنچے تو اگر یہ سینچائی ایسی ہو کہ عام طور پر کہا جاسکے کہ ان کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے تو اس پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ نہر اور بارش کے پانی سے سیراب ہوئے ہیں تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر سینچائی کی صورت یہ ہو کہ عالم طور پر کہا جائے کہ دونوں ذرائع سے سیراب ہوئے ہیں تو اس پر زکوٰة ساڑھے سات فیصد ہے۔
(۱۸۴۲)اگر کوئی شک کرے کہ عام طور پر کون سی بات صحیح سمجھی جائے گی او ر اسے علم نہ ہو کہ سینچائی کی صورت ایسی ہے کہ لوگ عام طور پر کہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی یا یہ کہیں کہ مثلاً بارش کے پانی سے ہوئی ہے تو وہ اگر ساڑھے سات فیصد زکوٰة دے تو کافی ہے۔
(۱۸۴۳)اگر کوئی شک کرے اور اسے علم نہ ہوکہ عموماً لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ڈول وغیرہ سے ہوئی ہے تو اس صورت میں بیسواں حصہ دینا کافی ہے او اگر اس بات کا احتمال بھی ہو کہ عموماً لوگ کہیں کہ بارش کے پانی سے سیراب ہوئی ہے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۴۴)اگر گیہوں،جو ،کھجور اور انگور بارش اور نہر کے پانی سے سیراب ہوں اور انہیں ڈول وغیرہ کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن ان کی سینچائی ڈول کے پانی سے بھی ہوئی ہو اور ڈول کے پانی سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نہ ملی ہو تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر ڈول وغیرہ کے پانی سے سینچائی ہوئی ہواور نہر اور بارش کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن نہر اور بارش کے پانی سے بھی سیراب ہوں اور اس سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نہ ملی ہوتو ان پر زکوٰة بیسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۵)اگر کسی کھیت کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی جائے اور اس سے ملحقہ زمین میں کھیتی باڑی کی جائے او ر وہ ملحقہ زمین اس زمین سے فائدہ اٹھائے اور اسے سینچائی کی ضرورت نہ رہے تو جس زمین کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے اس کی زکوٰة بیسواں حصہ اور اس سے ملحقہ کھیت کی زکوٰة احتیاط کی بنا پر دسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۶)جو اخراجات کسی شخص نے گیہوں،جو کھجوراور انگور پر کئے ہوں انہیں وہ فصل کی آمدنی سے منہاکر کے نصاب کا حساب نہیں لگا سکتا لہذا اگر ان میں سے کسی ایک کا وزن اخراجات کا حساب لگانے سے پہلے نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس پر زکوٰة دے۔
(۱۸۴۷)جس شخص نے زراعت میں بیج استعمال کیا ہو خواہ وہ اس کے پاس موجود ہویا اس نے خریدا ہو وہ نصاب کاحساب اس بیج کو فصل کی آمدنی سے منہا کر کے نہیں کر سکتا بلکہ ضروری ہے کہ نصاب کا حساب پوری فصل کو مد نظر رکھتے ہوئے لگائے۔
(۱۷۴۸)جو کچھ حکومت اصلی مال سے(جس پر زکوٰة واجب ہو)بطور محصول لے لے اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔مثلاً اگر کھیت کی پیداوار۲۰۰۰کلو ہواور حکومت ۱۰۰کلو بطور لگان کے لے لے تو زکوٰة فقط۱۹۰۰ کلو پر واجب ہے۔
(۱۸۴۹)احتیاط واجب کی بنا پر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ جو اخراجات اس نے زکوٰة واجب ہونے سے پہلے کئے ہوں انہیں وہ پیداوار سے منہا کرے اور باقی ماندہ پر زکوٰة دے۔
(۱۸۵۰)زکوٰةواجب ہونے کے بعد اخراجات کئے جائیں جو کچھ زکوٰة کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے وہ پہداوار سے منہا نہیں کیا جاسکتا اگرچہ احتیاط کی بنا پر حاکم شرع یا اس کے وکیل سے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی ہو۔
(۱۸۵۱)کسی شخص کے لئے یہ واجب نہیں کہ وہ انتظار کرے تاکہ جو اور گیہوں کھلیان تک پہنچ جائیں اور انگوراور کھجور کے خشک ہونے کاوقت ہوجائے پھر زکوٰة دے بلکہ جونہی زکوٰة واجب ہو جائز ہے کہ زکوٰة کی مقدار کاا ندازہ لگا کر وہ قیمت بطور زکوٰة دے۔
(۱۸۵۲)زکوٰة واجب ہونے کے بعد انسان یہ کرسکتا ہے کہ کھڑی فصل کاٹنے یا کھجور اور انگور کے چننے سے پہلے زکوٰة،مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وکیل کو مشترکہ طور پرپیش کر دے اور اس کے بعد وہ اخراجات میں شریک ہوں گے۔
(۱۸۵۳) جب کوئی شخص فصل یا کھجور اور انگور کی زکوٰة عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وکیل کو دے دے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ بلا معاوضہ مشترکہ طور پر ان چیزوں کی حفاظت کرے بلکہ وہ فصل کی کٹائی یا کھجور اور انگور کے خشک ہونے تک مال زکوٰة اپنی زمین میں رہنے کے بدلے اجرت کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
(۱۸۵۴)اگر انسان چند شہروں میں گیہوں،جو ،کھجور یا انگور کا مالک ہو اور ان شہروں میں فصل پکنے کا وقت ایک دوسرے سے مختلف ہو اور ان سب شہروں سے فصل اور میوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہوتے ہوں اور یہ سب ایک سال کی پیداور شمار ہوتے ہوں تو اگر ان میں سے جوچیز پہلے پک جائے وہ نصاب کے مطابق ہو توضروری ہے کہ اس پر اس کے پکنے کے وقت زکوٰة دے اور باقی ماندہ اجناس پر اس وقت زکوٰة دے جب وہ دستیاب ہوں اور اگر پہلے والی چیز نصاب کے برابر نہ ہو تو انتطار کرے تاکہ باقی اجناس پک جائیں۔پھر اگر سب ملاکر نصاب کے برابر ہوجائیں تو ان پر زکوٰة واجب ہے اور اگر نصاب کے برابر نہ ہوں تو ان پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۵۵)اگر کھجور اور انگور کے درخت سال میں دو دفعہ پھل دیں اور دونوں مرتبہ کی پیداور جمع کرنے پر نصاب کے برابر ہوجائے تواحتیاط کی بنا پر اس پیداور پر زکوٰة واجب ہے۔
(۱۸۵۶)اگر کسی شخص کے پاس غیر خشک شدہ کھجوریں ہوں یا انگور ہوں جو خشک ہونے کی صورت میں نصاب کے مطابق ہوں تو اگر ان کے تازہ ہونے کی حالت میں وہ زکوٰة کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰة کے مصرف میں لے آئے جتنی ان کے خشک ہونے پر زکوٰة کی اس مقدار کے برابر ہو جو اس پر واجب ہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۸۵۷)اگر کسی شخص پر خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰة واجب ہو تو وہ ان کی زکوٰة تازہ کھجور یا انگور کی شکل میں نہیں دے سکتا بلکہ اگر وہ خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰة کی قیمت لگائے انگور یا تازہ کھجور یں یا کوئی اور کشمش یا خشک کھجوریں اس قیمت کے طور پر دے تو اس میں بھی اشکال ہے نیز اگر کسی پر تازہ کھجور یا انگور کی زکوٰة واجب ہو تو وہ خشک کھجور یا کشمش دے کر وہ زکوٰة ادا نہیں کر سکتا بلکہ اگر وہ قیمت لگا کر کوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچہ تازہ ہی ہو اس میں اشکال ہے۔
(۱۸۵۸)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جو مقروض ہو اور اس کے پاس ایسا مال بھی ہو جس پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو توضروری ہے کہ جس مال پر زکوٰة واجب ہو چکی ہو پہلے اس میں تمام زکوٰة دی جائے اور اس کے بعد اس کا قرضہ ادا کیا جائے ۔لیکن اگرزکوٰة اس کے ذمے واجب الادا ہوچکی ہو تواس کا حکم بھی باقی قرضوں کا حکم ہے۔
(۱۸۵۹)اگر کوئی ایسا شخص مرجائے جو مقروض ہو اور ا سکے پاس گیہوں،جو کھجور یا انگور بھی ہو اور اس سے پہلے کہ ان اجناس پر زکوٰة واجب ہو اس کے ورثاء اس کا قرضہ کسی دوسرے مال سے ادا کر دیں تو جس وارث کا حصہ نصاب کی مقدار تک پہنچتا ہو تو ضروری ہے کہ زکوٰة دے اور اگر اس سے پہلے کہ زکوٰة ان اجناس پر واجب ہو متوفی کا قرضہ ادا نہ کریں اور اگر اس کا مال فقط اس قرضے جتنا ہو تو ورثاء کے لئے واجب نہیں کہ ان اجناس پر زکوٰة دیں اور اگر متوفی کا مال اس کے قرض سے زیادہ ہو جبکہ متوفی پر اتنا قرض ہو کہ اگر اسے ادا کرنا چاہیں توگیہوں،جو،کھجور اور انگور میں سے بھی کچھ مقدار قرض خواہ کو دینی پڑے گی تو جو کچھ قرض خواہ کو دیں اس پر زکوٰة نہیں ہے اور باقی ماندہ مال پر وارثوں میں سے جس کا بھی حصہ زکوٰة کے نصاب کے برابر ہو اس کی زکوٰة دینا ضروری ہے۔
(۱۸۶۰)جس شخص کے پاس اچھی اورگھٹیا دونوں قسم کی گندم،جو،کھجوراور انگور ہوں جن پر زکوٰة واجب ہوگئی ہو اس کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ اچھی والی قسم کی زکوٰة گھٹیا قسم سے نہ دے۔
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to Raz For This Useful Post:
fizzamasoomali (Thursday, December 06, 2007), kinzacss (Tuesday, March 16, 2010), madiha alvi (Thursday, November 28, 2013)