View Single Post
  #28  
Old Monday, November 10, 2014
Red Flower's Avatar
Red Flower Red Flower is offline
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default


ایک پردیسی کی داستان



ہوس زر انسانی فطر ت ہے اور اس فطر ت نے انسانی رشتوں کے تقدس کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ زر کے عفریت نے آج کے انسان کو نگل لیا ہے۔ پیدل، سائیکل پر سوار ہونے کی کو شش میں ہے ، سائیکل سوار سکوٹر لینے کے جتن کر رہا ہے ، سکوٹر والا کار کے خواب دیکھتا ہے اور کار والا ہوائی قلعوں کی تعمیر میں لگا رہتاہے۔ جب سے خلیج کی ریاستوں سے دولت کے انبار آئے ہیں ، دوبئی چلو کا نعرہ ہر کسی کی زبان پر ہے ۔ لکھ پتیوں کی تعداد لاکھوں ہوئی ہے تو دوسرے لا کھوں بھی لکھ پتی بننے کے شوق میں ان ریاستوں کی طر ف بھاگنے لگے ہیں ۔ کوئی گھر کا اثاثہ بیچ رہا ہے، کو ئی بہو بیٹیوں کے زیورات کے سہارے دوبئی کا ویزا حاصل کرنے کے چکر میں ہے اور کوئی باپ دادا کی جائیداد کو داﺅ پر لگارہا ہے ۔ جو لوگ ویزا حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں وہ نا جائز طریقے سے ملک سے بھاگنے کی کو شش میں لگ جا تے ہیں۔ اس طر ح انسانی سمگلنگ کا کاروبار بھی شروع ہو گیا ۔ صدیوں پرانی غلا می کے آثار دوبارہ نمایاں ہو گئے۔ انسان انسان کا مالک اور آدمی آدمی کا غلام ہونے لگا ۔ مزدوری کے نام پر بیگار کیمپ کھل گئے ہیں۔ انسانیت کا کاروبار زوروں پر شروع ہو گیا ۔ غیر قانونی طریقوں سے لانچوں کے ذریعے آنا جا نا معمول بن گیا ۔ کئی دفعہ یہ لا نچیں غرقاب ہوئیں ۔ اپنی گم گشتہ جنت کی تلاش میں آنے والوں کونہ ساحل ملا نہ کفن دفن نصیب ہوا اور وہ مچھلیوں کی خوراک بن گئے ۔ دولت جمع کر نے کی ہوس اور اپنا معیا ر زندگی بہتر کرنے کی خواہش نے مجھے بھی اپنے ملک سے دور جا پھینکا اور میں دیار غیر میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے گیا۔ یہ دیا ر غیر مقدس جگہ ہے جہاں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جہاں خدا کے محبو ب محوِ استراحت ہیں ، جہاں ہر وقت رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ جہاں ہر لمحے عقیدت و محبت کے پھول نچھاور ہوتے ہیں ، جہاں کروڑوں فرشتوں کے ساتھ لاکھوں انسان درود و سلام کے گجرے پیش کرتے ہیں، جہاں بڑے بڑے بادشاہوں ، سرداروں کے سر جھک جا تے ہیں، جہاں دنیا بھر کے مسلمان اپنی آنکھوں کی پیاس اور دل کی تشنگی کو مٹاتے اور روح کو سیراب کرنے آتے ہیں۔ میں یہاں صر ف دولت کمانے آیا تھا۔ لا کھوں ڈالر بنانے اور کروڑوں ریا ل کمانے۔ مجھے اس شہر کے تقدس سے زیادہ دولت سے پیا رتھا ۔ صبح سرکا ری اسپتال میں کام کرنے کے بعد غیر قانونی طریقے سے اپنے گھر میں کلینک چلاتا ۔ اسپتال سے زیادہ گھر کے مریضوں پر توجہ دیتا ۔ قیمتی اور نایا ب ادویہ اسپتال سے ہی ہتھیا کر لے آتا۔ اس طر ح غیر قانونی پریکٹس کے علا وہ دواﺅں کی چوری سے اپنا بنک بیلنس بڑھانے لگا ۔ خوابوں میں بھی مجھے ڈالر اور ریال نظر آتے تھے ۔ ایک دن اسپتال سے لوٹا تو درجنوں مریضوں کو اپنا منتظر پایا ۔ مریضوں کو گن کر اپنی دولت میں اضافہ کر نے کا حساب جو ڑنے لگا۔ اسپتا ل میں آٹھ گھنٹے کام کے بعد تھک جانے کے با وجود آرام میں سکون نہیں مل رہا تھا۔ ان مریضوں کو جلدی جلدی نپٹانے لگا۔ اس افراتفری میں اکثر تشخیص میں گڑ بڑ ہو جاتی یا دوائی کے انتخاب میں کوئی گڑبڑ ہو جاتی ہے ۔ اس روز ایک بچے کو انجکشن غلط لگ گیا اور انجکشن نے فوری اثر دکھایا۔ بچہ تڑپنے لگا۔ اس انجکشن کے اثر کو ختم کر نے کے لیے میرے پا س دوسرا انجکشن موجود نہیں تھا۔ شام کا وقت ہو نے لگا ۔ تمام میڈیکل سٹور بند ہو چکے تھے ۔ دوسرے اتنے فاصلے پر تھے کہ وہاں پہنچتے پہنچتے بچے کے دم توڑنے کا خطرہ تھا ۔ بچے کے والدین اس کی حالت سے سخت پریشان و مشتعل ہوئے اور انہوں نے سرکاری اسپتال میں لے جا نے اور ہمارے غلط علا ج کی شکایت کی دھمکی دی۔ وہ با اثر شیخ تھا جس کا بچہ میرے زیر علاج تھا اور میرے غلط انجکشن کی وجہ سے زندگی اور مو ت کی کشمکش میں تھا۔ سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر پریکٹس کرنا جرم ہے ۔ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کی سزا موت ہے۔ اب بچے کی مو ت کے ساتھ مجھے اپنی مو ت بھی نظر آنے لگی۔ دولت کے انبار میرا منہ چڑانے لگے۔ ڈالر اور ریا ل میری جان بچانے میں بے بس نظر آنے لگے اور میں اب انسان کی عظمت اور حقیقت سے روشناس ہونے لگا کہ انسان انمول ہے دولت کچھ نہیں ہے ۔ ” آپ میراانتظار کریں “ …….. میں نے شیخ سے کہا …….. میں ابھی اس ٹیکے کے توڑ کا انتظام کر تا ہوں ۔“ میں بھا گا بھاگا بازار گیا ۔ مغر ب کا وقت ہونے لگا تھا ۔ تمام دوکاندار نماز کی ادائیگی کے لیے دکانیں بند کرنے لگے تھے ۔ ایک آدھ میڈیکل سٹور کھلا تھا مگر بدقسمتی سے وہاں پرمطلوبہ انجکشن نہ مل سکا۔ پاگلوں کی طر ح ادھر ادھر بہت دوڑا بہت ہا تھ پا ﺅں مارے، مگر نا کامی مقدر بن چکی تھی بچاﺅ کے تمام در بند ہو چکے تھے اور میں سزا و قضا کی گر فت میں تھا ۔ جب ہر طر ح سے ناکام و نا مراد ہوا تو اچانک میری نظر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف اٹھ گئی۔ گنبد خضریٰ، سبحان اللہ۔ مجھے آج اس روضہ اقدس کی عظمت کا خیال آیا جس پر زمین ناز کر تی ہے کائنا ت فخر کر تی ہے ، انسانیت کو قرار اور سکون ملتا ہے ، زمانے کے ٹھکرائے ہوﺅں کو پناہ ملتی ہے ۔ مجھے آج احساس ہوا کہ دنیا کی ہر پریشانی کا حل تمام مصائب کی دوا، تمام دکھوں کا علاج کالی کملی والے صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی چھاﺅں میں ہے. دھڑکتے دل کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جالیوں سے لپٹ پڑا ۔ شرمندہ اور ندامت کے آنسوﺅںسے ان مقدس جالیوں کو بھگونے لگا ۔ اپنے کئے پر پچھتانے اور فریاد کرنے لگا ۔ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ مجھے معاف کر دو، میں بھول گیا تھا۔ تیرے مقدس شہر میں میں نے لالچ کا کاربار شروع کیا ۔ دنیا بناتے ہوئے اپنی عاقبت بھول گیا تھا۔ میں گناہ گار ہوں۔ روسیا ہ ہوں، مگر شکر ہے کہ تیری امت سے ہوں …. مجھے تیر ی رحمت پر بھر وسہ ہے ۔ تیرے کرم کا آسرا ہے ۔ خدا را کرم کی اک نظر ادھر فرمائیے ۔ وطن سے بے وطن پردیس میں مارا جاﺅں گا۔ میرے بچے یتیم ہو جائیں گے۔ میری بیوی بیوہ اور بھائی لاوارث ہو جائیں گے ۔ بد نامی سے رشتہ دار دور اور والدین زندہ درگور ہو جائیں گے ۔ مجھے اپنے کئے پر ندامت ہے ۔ شرمندگی سے سر نہیں اٹھا سکتا ۔ ندامت سے بات نہیں کر سکتا ۔ میں دولت کی ہوس سے تو بہ کرتا ہوں تیرا دربار گناہ گاروں کے لے کھلا رہتا ہے۔ سیا ہ کا روں کو معاف کرنا تیری فطر ت ہے۔ میرے مولا میں نے حقیقت کو دیکھ لیا ہے ۔ تیری عظمت کو پہچان لیا ہے ۔ میں اپنے گنا ہوں سے تائب ہو تا ہوں۔ میرے مولا…. میرے آقا میں آنسو بہا تا بوجھل قدموں سے اپنے کلینک کی طرف چل پڑا ۔ جب کلینک پہنچا تو وہاں میری نظر بچے پڑی جو اپنے والد سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور اس کا باپ بھی مسکرا کر میری طر ف دیکھ رہا تھا ۔ میں سکتے کی سی کیفیت میں انہیںدیکھ رہا تھا۔ حقیقت کو خواب سمجھ رہا تھا ۔ وہ شیخ دوڑتا ہوا میرے پا س آیا۔ ’’ ڈاکٹر !“ ……..وہ میرے ساتھ لپٹ کر بولا ” میرا بر سوں سے مریض بچہ بالکل ٹھیک ہو رہا ہے ۔ خدانے میری سن لی ہے ڈاکٹر ! تمہاری دوا میں بڑا اثر ہے ۔ “ …. اور اس نے نہ جانے کتنے ریال میرے آگے رکھ دئیے۔ میں اس دولت سے لا تعلق اس سو چ میں تھا کہ دوا میں اثر تھا یا دعا میں جو زندگی میں پہلی دفعہ دل کی گہرائیوں سے مانگی تھی اور جس نے زہریلی دوا کو شفا میں بدل دیا اور ساتھ ہی میری دنیا بھی بدل گئی …. اور مجھے آدمی سے انسان بنا دیا ۔ کچھ عرصہ بعد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو نے لگا تو ایسا معلو م ہوا جیسے اپنی تمام دولت یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں وطن پہنچ کر انسانیت کی خدمت میں مصروف رہنے لگا اور اپنے اندر سکون کی ایک ایسی لذت اور مٹھاس محسوس کرنے لگا جو دولت کے انباروں میں بھی نہیں ملتی اور جو بڑے بڑے محلوں ، بنگلوں اور کاروں میں نصیب نہیں ہو تی …. اس حقیقی تو بہ نے مجھے حقیقی سکون عطا کیا اور اب میں پر سکون زندگی بسر کر رہا ہوں
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote