View Single Post
  #4  
Old Sunday, December 07, 2014
qayym's Avatar
qayym qayym is offline
Senior Member
 
Join Date: Jan 2008
Location: Wah Cantt
Posts: 569
Thanks: 1,082
Thanked 843 Times in 342 Posts
qayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of lightqayym is a glorious beacon of light
Default

تینوں درویش اپنا اپنا احوال حاضر کر چکے تو چوتھے رفیق پر توجہ کی جو ایک خستہ رداء اوڑھے اونگھ رہا تھا -یاران بدبخت کی آہٹ پا کر اس کفنی پوش نے آنکھیں واء کیں...پہلو بدلا...بارے گڈری سے ایک ولائیتی سگار نکال آتش دکھائی.....اور یوں گویا ہوا

اے شرمندگان محفل !! یہ گدڑی پوش اب تک صبر کا پیالہ پی کر تمہارے قصہ فضول و نامعقول کو سنتا رہا اور جی ہی جی میں تمہاری نالائقی و بے وقوفی اور ۔۔۔ پن کی داد دیتا رہا.- فقیر خود بھی ایک مدت سے اس تماشہء نیرنگ کی زینت بنا ہوا ہے کہ معلوم پڑتا ہے کہ پیدا ہی دھرنے میں ہوا ہے- وطن اس درویش کا کشمیر ہے کہ حسن جس کا بے نظیر ہے- اجداد نے نیت ہجرت کی فرمائی اور شہر راولپنڈی کو مسکن بنایا- والد اس فقیر کا ایک غریب کشمیری بٹ تھا اور پیشے سے کوزہ گر - چنانچہ بلخ، بخارا، بغداد و ثمر قند تک ان کے ہاتھوں کے بنے "کوزے" ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے- والد بزرگوارم نے حصول اولاد کےلیے بہتیرے جتن کئے- آستانوں پہ چراغ جلائے...مندروں کی گھنٹیاں بجائیں اور حاذق طبیبوں کے قدیم نسخے کھائے آخر طب قدیم وجدید کے نسخہ ہائے ملیح ونمکین اور روحانی اسرار سماوی رنگ لائے اور یہ حقیر فقیر۔۔۔۔دار فانی میں وارد ہو ہی گیا - گھر گھر چراغاں ہوا اور جشن ولادت کئی دن تک چلا-...خلق خدا کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا... " واہ بٹ صاحب کیا "کوزے" میں دریا بند کیا ہے"

بچپن ہی سے طبیعت میں بلا کی روانی تھی چنانچہ جدھر منہ آتا روانہ ہو جاتا اور بڑے جتن سے پکڑ دھکڑ واپس لایا جاتا-آخر والد بزرگوارم نے کسی حاذق طبیب سے مشورہ کر کے فدوی کے گلے میں ایک گھنٹی ڈلوادی...اور یوں یہ فقیر "۔۔۔۔ٹلی " کے نام سے مشہور عالم ہوا-.......(چونک اٹھنا تینوں درویشوں کا ..... دیکھنا اس گدڑی پوش کو....اور کرنی آپس میں....کھسر پسر

سن جب 21کا ہوا اور قلعہ جوانی کا سر کیا تو ہر سمت میری جواں مردی کے قصے مشہور ہوئے- میں مرغی سے تیز بھاگ سکتا تھا اور اڑیل سے اڑیل گھوڑا مجھے لفٹ کرائے بغیر گزر جاتا تھا- نصف شب گوالوں کے باڑوں میں جا گھستا اور دودھ سے سیر ہو کر نکلتا- میں نے شیر کی کھال کرائے پر لیکر مردانے میں ٹانگ رکھی تھی تاکہ احباب پر شجاعت کا سکہ بیٹھا رہے اور دشمنوں پر دھاک- ایک دن بازار جا رہا تھا کہ پری زادوں کا غول نظر آیا..معلوم پڑا کہ کوہ قاف کی پریاں ہیں اورکالج جا رہی ہیں...فورا ہزار جان فدا ہوا اور وہیں کھڑے کھڑے کئی شعر کہہ ڈالے....کہ اچانک ایک حسن بانو نے نعلین اتار اس فقیر کی عشق تھراپی کی اور یوں گویا ہوئی.." اے بدقماش...جب دودھ مل جاتا ہے تو بھینس پالنےکا تکلف کیوں کرتا ہے"...اس پری کے یہ زریں کلمات سن کر طبیعت ایک مدت تک مسرور رہی

کچھ بڑا ہوا تو کسب روزگار کا کیا...اور تاریخی لال حویلی کے سامنے کتابوں کی دکان کھول لی جہاں ہر وقت پری زادوں کا رش لگا رہتا...پھر کپڑوں کی تجارت شروع کی اور خچروں پر اسباب تجارت لاد کر ملکوں ملکوں پھرا....خوب منافع ہوا - ایک مدت بعد جب یہ درویش وطن لوٹا تو اسی لال حویلی کا مالک بن چکا تھا
انہی دنوں دیس میں شیروں کی ایک جوڑی کا طوطی بولنے لگا..جنگل کے سارے لکڑبگھے اور گیدڑ بلے ان کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے - خلق خدا کو دیوانہ وار ان شیروں پر نثار ہوتے دیکھا تو اس درویش نے گودڑی پھینکی اور شیر کی کھال پہن کر ان کے ساتھ مل گیا...اب تو جیسے دنیا ہی بدل گئی....فقیر کا اشتیاق دیکھ کر شیر بادشاہ نے وزارت اطلاع رسانی و۔۔۔ خانی امور سپرد کی اور یوں یہ درویش دودھ کی نہروں میں ڈبکیاں لگانے لگا - اگلی بادشاہت میں ریل کے ڈبے سپرد ہوئے...فقیر نے بجلی سے چلنے والی ٹرین کو دوبارہ بھاپ پر منتقل کرنے کا شاندار منصوبہ بنایا جو کامیاب نہ ہو سکا

ایک دن ناگاہ رات کے اندھیرے میں طلسمی لباس پہنے لمبے بوٹ چڑھائے ایک شکاری آیا - اس نے نہایت چابکدستی سے ایک گہرا پھندا تیار کیا اور شیروں کی جوڑی کو آن قابو کیا....پنجرہ پہلے سے تیار تھا چنانچہ آنا فانا دونوں شیر سر بمہر پیک کر کے بلاد عرب بھجوا دیے گیے- حالات کے بدلتے تیور دیکھ فقیر نے فورا شیر کی کھال پر تین حرف بھیجے...بازار سے ایک پالش کی ڈبی اور برش خریدا اور شکاری کے قدموں میں جا بیٹھا.........!!! چنانچہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور اس گدڑی پوش کو دوبارہ دودھ کی نہروں کا ناظم بنادیاگیا جہاں یہ درویش کوہ لام میم قاف کی حسین پریوں کے ساتھ ایک مدت تک غسل آفتابی فرماتا رہا

ایک دن وہ شکاری غلطی سے اپنا طلسمی لباس اتار بیٹھا....سحر خاکی چھٹا تو شکاری ایک بونا بن گیا جسے بلی بھی آسانی سے چبا سکتی تھی....شیروں کی آمد کا پھر غلغلہ بلند ہوا اور جنگلی گیدڑ اور باگڑ بلے منہ اٹھا ادھر ادھر بھاگنے لگے- یہ درویش بھی پالش برش پھینک....بھاگم بھاگ اپنی حویلی پہنچا اور گودام سے میلی کچیلی شیر کی کھال نکالی....اسے پہن شیروں کے سامنے آیا تو غراہٹ نے استقبال کیا...تب یاد آیا کہ "دم" تو گودام میں ہی چھوڑ آیا ہوں... واپس آکر بہت تلاش کی...خادموں کو آگے پیچھے دوڑایا لیکن "دم" نہ ملنی تھی نہ ملی

انہی دنوں وطن میں ایک کھلاڑی کا طوطی دن رات بولنے لگا- یہ پیر مرد جہاں جاتا طوطیاں اور کوے اس کے ساتھ ساتھ اڑتے اور بھانڈ میراثی...پیچھے پیچھے توتی بجاتے ہوئے چلتے...- اس فقیر نے اس طوطی خانے میں یاورئی قسمت کا فیصلہ کیا....لیکن عین موقع پر میرے گلے میں پڑی " ٹلی" آڑھے آگئی جو والد بزرگوارم نے بچپن میں ڈالی تھی- کھلاڑی نے بولا کہ تجھ جیسا "ٹلی " بردار اس قافلہ نیک طینت کا چپڑاسی بننے کا بھی اہل نہیں.....میں نے فورا ٹلی اتار کے جیب میں ڈالی تو اس پیر مرد نے مجھے گلے لگا لیا بوسے دیے اور فرنٹ سیٹ پر جگہ دے دی..جلد ہی کھلاڑی سے میری دوستی کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا......کھلاڑی نے میرے لیے تازہ دودھ کے دریا بہا دیے اور میں نے چرس کا پورا ٹرک میدان میں پھینکوا دیا....یوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا خوب موقع ملا

آخر شیروں سے بدلہ لینے کی ٹھانی- ادھر والد بزرگوارم نے عالم رویا سے دھمکی دی کہ اگر اس " ٹلی اتار" کھلاڑی سے "ٹلی کی ہتک" کا بدلہ نہ لیا تو...32 دھاریں بخشوانے سے رکوا دوں گا.....سوچا کیوں نہ دونوں دشمنان ملک و ملت سے اکٹھا بدلہ لوں...تاکہ دونوں ابدی شکست پاویں....اور یہ فقیر خلق خدا کے روبرو شادبی پاوے- چنانچہ ملک "احمقستان" سے طلسمی لخلخہ منگوایا...اورکھلاڑی کو سوتے ہوئے کئی بار سنگھایا....نسخہ رنگ لایا اور جلد ہی کھلاڑی قہقہے مار مار کر رونے لگا...اس پر ڈی جے۔۔۔۔ نے ایک طربیہ ساز چھیڑا اور فوک گلوکار نے رلا دینا والا گیت چھیڑ دیا....پھر کیا تھا ہر طرف" حال حال" کا عالم ہو گیا..طوطیاں طوطے...گائے بکریاں سب رونے لگ گئے..یہاں تک کہ اسلام آباد میں جل تھل ہو گئی.... کھلاڑی رو رو کے ہلکان ہوتا تو یہ فقیر اسے مذید لخلخہ سنگھاتا....اور اگلے دن وہ گلا پھاڑ پھاڑ کے روتا......میں نے ایک جادوگر کی بھی خدمات حاصل کیں اور موم کے دو پتلے بنوائے....کھلاڑی کو وہ جادو سے امپائر نظر آتے یوں کھلاڑی ٹرک کی بتی کے پیچھے ....آگے ہی آگے بڑھتا گیا.....اور اس کا طوطی...نیچے ہی نیچے بیٹھتا گیا

تو صاحبان !! یہ آج آپ لوگ جس عالم خجل خواری سے گزر رہے ہو.....یہ سب اس فقیر کا کیا دھرا ہے....اس سارے ۔۔۔۔ کھیل کا تنہا ذمہ دار یہ درویش ہے.......تو حضرات یہ تھی میری داستان الم....آپ حضرات تشریف رکھو....میں ذرا کھلاڑی کو لخلخہ سنگھا کے آتا ہوں

یہ کہ کر درویش اٹھنے لگا تو تینوں درویشوں نے اپنی اپنی عبائیں دور پھینکیں...."او تیری......." کہہ کر اس پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ پیر مرد ہرن کی طرع قلانچیں بھرتا ہوا....کینٹینر پر چڑھ گیا ......اور "گو گو " کے نعرے لگانے لگا-
__________________
Hai ghanimat kay israr-e-hasti sai hum
Bay khabr aaie hain, bay khabr jaien gain
Q A
Reply With Quote