اشک آنکھوں سے اب* بھی جاری ہے
salam by sharib
رخصتِ شاہ ہم پہ بھاری ہے
کیفیّت اپنی اضطراری ہے
ماہ دو ، یوم آٹھ کم نکلے
اشک آنکھوں سے اب بھی جاری ہے
جو علی سے مقابلہ پہ تلے
اسکی سوچوں پہ کفر طاری ہے
کیسے کہتا ہے خود کو مومن ہوں
بغض جس کے لہو میں جاری ہے
سر جھکا کر کہا حسین ہوں میں
بو ترابانہ خاک ساری ہے
کردو آگاہ دشمنِ دیں کو
ذولفقارِ علی دودھاری ہے
خود کو ہم جیسا کہہ رہیں ہیں رسول
یہ فقط ان کی انکساری ہے
کل گنہ اپنے بخشوا شارب
آخری دورِ آہ و زاری ہے
|