#1
|
||||
|
||||
Tanz-o-Mazah
جنُونِ لطیفہ کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔پھر سابق خانساماؤں ک پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میان انہوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مرعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے ۔ایک شرط انہوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے عوضی مالک پیش کرنا پڑے گا ۔ کافی ردوکد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اُصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں ۔ خود بیگم صاحبہ صبح 5 بجے سے رات کے 10 بجے تک گھر کے کام کاج میں جُٹی رہتی ہیں ۔ کہنے لگے "*صاحب ! ان کی بات چھوڑئیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں ۔ میں تو نوکر ہوں !" ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجوں گا۔۔۔ جھاڑو نہیں دوں گا ۔۔۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا ۔۔۔ میز نہیں لگاؤں گا ۔۔۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دُھلاؤں گا ۔ ہم نے گھبرا کر پوچھا " پھر کیا کرو گے؟ " " یہ تو آپ بتائیے ۔ کام آپ کو لینا ہے ۔ میں تو تابع دار ہوں۔" جب سب باتیں حسبِ منشا و ضرورت /ضرورت ہماری ، منشا ان کی / طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا سلف لانے کے لئے فی الحال کوئی علیٰحدہ نوکر نہیں ہے ۔ اس لئے کچھ دن تمہیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنحواہ طے کر لو ۔ فرمایا "جناب ! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں ۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔" "پھر بھی ؟" کہنے لگے " پچھتر روپے ماہوار ہو گی ۔ لیکن اگر سودا بھی مُجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہو گی ! " مُشتاق احمد یوسفی "چراغ تلے"__________________ |
The Following User Says Thank You to sara soomro For This Useful Post: | ||
#2
|
||||
|
||||
کافی عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں ۔ یہ اس لئے کہ رہا ہوں کہ دونوں کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی ۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوس نسخہ ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے ، مشرقی افریقہ کےاس انگریزافسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی مزے دار کافی کی سارے ضلع میں دھوم تھی ۔ ایک دن اس نے نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش زائقہ کافی بنائی ۔ انگریز نے بہ نظرِ حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب پوچھی ۔ حبشی نے جواب دیا ۔ بہت ہی سہل طریقہ ہے ۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں ۔ پھر اس میں کافی ملا کر دم کرتا ہوں ۔ " " لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو ۔ بہت مہین چھنی ہوئی ہوتی ہے " " حضور کے موزے میں چھانتا ہوں " " کیا مطلب ؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو ؟" آقا نے غضب ناک ہو کر پوچھا ۔ خانساماں سہم گیا "*نہیں سرکار ! میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا " مشتاق احمد یوسفی __________________
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... Last edited by Last Island; Saturday, May 09, 2009 at 03:38 PM. |
#3
|
||||
|
||||
صاف چھُپتی بھی نہیں ، سامنے آتی بھی نہیں
ایسی ہی ایک اور دعوت کا ذ کر ہے جس میں چند احباب اور افسرانِ بالا دست مدعو تھے۔ نئے خانساماں نے جو قورمہ پکایا ، اُس میں شوربے کا یہ عالم تھا کہ ناک پکڑ کے غوطے لگائیں تو شاید کوئی بوٹی ہاتھ آ جائے ۔ اکّا دکّا کہیں نظر آ بھی جاتی تو کچھ اس طرح کہ : صاف چھُپتی بھی نہیں ، سامنے آتی بھی نہیں اور یہ بسا غنیمت تھا کیوں کہ مہمان کے مُنہ میں پُہنچنے کے بعد ، غالب کے الفاظ میں ، یہ کیفیت تھی کہ : کھینچتا ہے جس قدر اتنی ہی کھنچتی جائے ہے ! دورانِ ضیافت احباب نے بکمالِ سنجیدگی مشورہ دیا کہ " ریفریجریٹر خرید لو ۔ روز روز کی جھک جھک سے نجات مل جائے گی ۔ بس ایک دن لذیز کھانا پکوا لو ۔ اور ہفتے بھر ٹھاٹھ سے کھاؤ اور کھلاؤ۔ " قسطوں پر ریفریجریٹر خریدنے کے بعد ہمیں واقعی بڑا فرق محسوس ہُوا۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پہلے جو بدمزہ کھانا صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے ، اب اسے ہفتے بھر کھانا پڑتا ہے ۔ مُشتاق احمد یوسفی "چراغ تلے
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
#4
|
||||
|
||||
سنہء
آخری قطع کو سن کر میں نے اسی وقت دل میں فیصلہ کر لیا کہ امتحان میں باعزت طریقے سے فیل ہونا اس اوچھے ہتھیار سے ہزار درجے بہتر ہو گا۔ بحر حال مرزا نے ایک ہفتے بعداس کلیدِ کامیابی کوامتحان میں بے دریغ استعمال کیا ۔جس میں انہیں دو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بڑی دشواری تو یہ کہ کاپی میں قطعات اور حروفِ ابجد کا حساب دیکھ کر کمرہء امتحان کا نگران ، جو ایک مدراسی کرسچین تھا، بار بار ان کے پاس لپک کر آتا اور سمجھاتا کہ اُردو کا پرچہ کل ہے ۔ مرزا جُھنجلا کر جواب دیتے کہ یہ ہمیں بھی معلوم ہے ۔ تو وہ نرمی سے پوچھتا کہ پھر یہ تعویذ کیوں لکھ رہے ہو؟ پایانِ کار مرزا نے وہیں کھڑے کھڑے اس کو فنِ تاریخ گوئی اور استخراجِ سنین کے رموز و نکات سے غلط انگریزی میں آگاہ کیا ۔ حیرت سے اس کا مُنہ سات ک ہندسہ کی مانند پھٹے کا پھٹا رہ گیا ۔ حروف و اعداد کو بہکی بہکی نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا : " تعجب ہے کہ تم لوگ ماضی کے واقعات کا پتا بھی علمِ نجوم سے لگا لیتے ہو ! " تحریر ۔۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی اقتباس ۔۔۔۔ چراغ تلے "سنہء*
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
#5
|
||||
|
||||
جنرل فیض علی چشتی بیان کرتے ہیں کہ وہ صدر ضیاءالحق کے ہمراہ فرانس کے دورے پر گئے۔ وفد کے اراکین کو ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ ایک شام صدر ضیاء الحق کے دروازے پر دستک ہوئی۔ صدر مملکت نے مہمان کو اندر آنے کی اجازت دیدی تو سفید وردی میں ملبوس ایک شخص اندر داخل ہوا جسکے کندھے اور سینے پر بہت تمغے سجے ہوئے تھے۔
صدر اسے دیکھ کر فوری کھڑے ہو گئے اور آنیوالے سے بغلگیر ہو گئے۔ علیک سلیک کے بعد خیریت دریافت کی، اپنے قریب بٹھایا اور فرانس کے قومی حالات پر گفتگو شروع کردی۔ انیوالے شخص نے کہا “جناب! میں تو اس ہوٹل کا بیرا ہوں اور آپ سے پوچھنے ایا ہوں کہ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔“ جنرل چشتی بیان کرتے ہیں کہ یہ سنکر صدر ضیاء الحق بڑے شرمندہ ہوئے۔ بیرے کے چلے جانے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ“آپ نے اسے کیا سمجھا؟“ ضیاءالحق کہنے لگے کہ “ میں سمجھا تھا کہ فرانسیسی بحریہ کے ایڈمرل ملاقات کیلئے آئے ہیں۔
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
The Following User Says Thank You to sara soomro For This Useful Post: | ||
Viceroy (Monday, May 11, 2009) |
#6
|
||||
|
||||
ایک دفعہ بش ایک سکول میں تقریر کرنے جاتا ھے ۔
تقریر کے بعد وہ سوال پوچھنے کی اجازت دیتا ھے ۔ ایک چھوٹا بچہ اپنا ھاتھ کھڑا کرتے ھے بش اس سے پچھتا ھے کے تمھارا نام کیا ھے بچہ کھتا ھے باب بز پوچھتا ھے کے تمھارا سوال کیا ھے بچہ کہتا ھے میرے تین سوال ھیں ۔ نمبر ایک ۔امریکہ نے یو این کے بغیر اعراق پر حملہ کیوں کیا ؟ نمبر دو۔ آپ کیسے پریزیڈنٹ بنے جبکہ کیرے کو زیادہ ووٹ ملے تھے ۔ نمر تین۔ اوسامہ بن لادن کا کیا بنا؟ جیسے ھی بچہ اپنے سوال ختم کرتا ھے اسی وقت بیل بجتی ھے بش بچوں کو بتاتا ھے کے آدھی چھٹی ھو گئ ھے باقی بات آدھی چھٹی کے بعد کریں گے آدھی چھٹی کے بعد بش کہتا ھے کے اب سوال پوچھ سکتے ھیں تو ایک الگ بچہ کھڑا ھوتا ھے بش اس سے کہتا ھے کے تمھارا نام کیا ھے بچہ کھتا ھے سٹیو بش کہتا ھے کہ سوال پوچھو بچہ کہتا ھے کہ میرے پانچ سوال ھیں نمبر ایک۔ ۔امریکہ نے یو این کے بغیر اعراق پر حملہ کیوں کیا ؟ نمبر دو۔ آپ کیسے پریزیڈنٹ بنے جبکہ کیرے کو زیادہ ووٹ ملے تھے ۔ نمر تین۔ اوسامہ بن لادن کا کیا بنا؟ نمبر چار۔آج ادھی چھٹی بیس منٹ پہلے کیسے ھو گئ۔ نمبر پانچ-باب کہاں گیا ۔
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
The Following User Says Thank You to sara soomro For This Useful Post: | ||
ravaila (Friday, May 22, 2009) |
#7
|
||||
|
||||
ذہانت یک عامل کا بڑا چرچہ تھا کہ وہ روحوں سے بات کروادیتے ہیں ۔ ایک بچہ جو اپنی ذہانت سے ہوشیاری کی وجہ سے محلے بھر میں مشہور تھا ان عامل کے پاس پہنچا اور نذرانہ پیش کرنے کے بعد کہا ۔ ’’میں اپنے دادا کی روح سے بات کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ اسے ایک اندھیرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں اگر بتیاں جل رہی تھیں ۔چند لمحوں کے بعد ایک بھاری آواز سنائی دی ۔ کیوں آئے ہو برخوردار؟قریب سے عامل صاحب کے چیلے نے بچے کو ٹھوکا دیا یہ تمہارے دادا کی روح بول رہی ہے ۔ پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟ دادا جان ! بچے نے سر کھجاتے ہوئے کہا ۔ ’’مجھے آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ کی روح یہاں کیا کررہی ہے ؟ جبکہ آپ کا تو بھی انتقال بھی نہیں ہوا‘‘۔ __________________
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
#8
|
||||
|
||||
سیاسی لغت سیاسی لغت حاضر خدمت ہے یعنی پاکستانی سیاست میں استعمال ہونے والے الفاظ کی توضیح و تشریح:۔ الف سے ”اقتدار اقتدار ایک ایسے نشے کا نام ہے جو کبھی نہیں اترتا۔خواہش اقتدار ایک متعدی مرض ہے جو بیٹے کو باپ سے لگتا ہے، اپوزیشن کو حکومت سے اور امیدوار کو الیکشن سے۔ الف سے” الیکشن الیکشن ایک حسین دھوکہ ہے جس کے ذریعے عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک کرپٹ حکومت کوگدی سے اتارا جاتا ہے اور دوسری کرپٹ حکومت کو بٹھایا جاتا ہے۔ اس فریب کن عمل کے بعد عوام آس لگالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کی تقدیر جاگ اٹھی۔ الف سے” اعتدال پسندی نئی صدی کی ایک خوبصورت سیاسی اصطلاح جو عوام کو ہر حال میں صبر، درگذر، تحمل اور امن عامہ کی تلقین کرتی ہے۔اگر آپ کو انصاف نہیں ملتا، کوئی غم نہیں۔ اگر آپ کے نصیب میں آزادی نہیں، کوئی بات نہیں۔ اگر آپکے حقوق غصب کئے جارہے ہیں، تو بھی اعتدال پسندی کا دامن تھامے رہیے۔ اعتدال پسندی کی چاہت سے آپ کے سینے میں عدم تشدد اور امن کی خواہش کا جذبہ تو پیدا ہوسکتا ہے۔ الف سے” افواہ افواہ ماڈرن سیاست کا ایک موثر ہتھیار ہے۔ ہر سچی افواہ ایک جھوٹی خبر ثابت ہوتی ہے اور جھوٹی افواہ سچی خبر کے زمرے میں آتی ہے۔ الف سے ”آنسو گیس پولیس ان لوگوں کیلئے سڑکوں پر آنسو گیس چھوڑتی ہے جو آنسووں سے پیار رکھتے ہیں۔ تاکہ حقوق کے متلاشی مصیبت زدہ لوگ جی بھر کے رو سکیں اور اپنا بوجھ ہلکا کرسکیں۔ پس اس سڑک پر نکل جائیں جہاں آنسو گیس کی بارش ہورہی ہے۔ بہت جلد آپکی آنکھوں میں انسووں کی برسات شروع ہوجائیگی اور دیکھتے ہی دیکھتے آپکا غم ہلکا ہوجائے گا۔ ب سے ”بیانات دل میں چھپے ”سیاسی“ جذبوں کو خوبصورت لفافوں میں بند کرنے کا نام بیانات ہے۔ پ سے ”پاکستان ملک خداداد جو چودہ اگست 1947ءکو برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا اور امریکہ کی غلامی میں چلا گیا۔ ت سے ”تقریر آنکھوں کے اشارات، ہاتھوں کی حرکات، حلق کی غرغراہٹ، گردن کا خم، ہونٹوں پر الفاظ کی موجیں، ایک گلاس پانی کی طلبی اور مائیک پر مکوں کی برسات سے ایک ایسا مرکب بنتا ہے جسے تقریر کا نام دیا جاسکتا ہے۔ سیاسی تقریر کو میٹھا، لذیذ اور سماعت فریب ہونا چاہیے کہ اِدھر منہ کھلے اُدھر الفاظ کے پھول برسنے لگیں۔ایسا نہیں کہ معلوم ہو ٹیچر کو سبق سنایا جارہا ہے۔اگر الیکشن سر پر کھڑے ہوں اور آپکے پاس وقت کم ہو تو سو الفاظ فی منٹ کی اسپیڈ سے تقریر کرنی چاہیے۔ ٹ سے ”ٹماٹر ایک خوش نما ترکاری جو سالن میں ڈالنے اور لیڈروں کا استقبال کرنے کے کام آتی ہے۔ ج سے ”جلسہ لوگوں کو الّو بنانے کی ایک عوامی تقریب جس میں صدر جلسہ کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو کرکٹ میں کپتان کی اور اسٹیج سکریٹری کا وہی مقام ہوتا ہے جو وکٹ کیپر کا۔ چ سے ”چمچہ سالن میں چلانے اور سیاست کو گھمانے کے کام آتا ہے۔
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
#9
|
||||
|
||||
ح سے ”حکمراں
اگر دنیا کے حکمرانوں کو بیچ سے نکال دو تو دنیا کے حالات خودبخود ٹھیک ہوجائیں۔ خ سے ”خبریں“ کسی اچھے واقعے کو ”خیریت“ اور برے واقعے کو ”خبر“ کہتے ہیں۔ صحافی زمانہ حال کی خبریں لکھتا ہے اور مورخ زمانہ ماضی کی۔امریکی صدر کے مزاج کی تبدیلی سے عالمی خبروں کا ٹمپریچر بدل جاتا ہے۔ خ سے ”خود کش حملہ دیوار سے لگائے ہوئے سر پھروں کا ایک موثر ہتھیار۔ کسی کو نہیں پتہ کہ اس ہتھیار کا موجد کون ہے۔ ان ملکوں میں جہاں غربت و مفلسی ہے ”خودکشی“ کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ ان ملکوں میں جہاں امریکہ حملہ کرتا ہے ”خودکش حملوں“ کیلئے ماحول سازگار ہوجاتاہے۔ د سے ”دفعہ 144 پاکستان کی ایک مشہور دفعہ جو اپوزیشن کی خود سری کو کنٹرول کرنے کے کام آتی ہے۔ اسکے نفاذ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کن کن شہروں میں حکومت کی مقبولیت کم ہے۔ ر سے ”روشن خیالی مشرق کو مغرب میں ڈھالنے کا ایک جدیدنسخہ جس کے آگے ”ملائیت“ نے دیوار کھڑی کردی ہے۔ س سے ”سیاست سیاست ایک ایسے خوبصورت اور خوش کن جھوٹ کا نام ہے جو پاکستان میں خوب پروان چڑھتا ہے۔ س سے ”سیاست داں پاکستان کا سب سے کامیاب طبقہ جو چاندی کا بلکہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتا ہے۔سیاستدانوں کیلئے سب سے اہم کام تقریر کرنا یعنی بولنا ہے۔ سیاستداں اگر سچ بولنے لگیں تو لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگیں۔ س سے ”سیاسی ڈرامہ ایسا ڈرامہ جس کا پروڈیوسر کوئی وزیر ہو سیاسی ڈرامہ کہلاتا ہے۔ اس ڈرامے میں ولن کا کردار اپوزیشن لیڈر ادا کرتا ہے۔ ع سے ”عوام ایک ایسا جانور جو کئی بار مختلف طریقے سے شکار ہوتا ہے۔ ف سے ”فوجی حکومت فوجی حکومت ایک کالا بادل ہے جو کسی بھی وقت سیاست کے آسمان پر منڈلاسکتا ہے۔ ہر فوجی حکمراں فری اسٹائل سیاسی کشتی میں اپنے مد مقابل کو ناک آوٹ کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ ق سے ”قومی اسمبلی ایک سیاسی اکھاڑہ جہاں شیطانی طاقتیں جمع ہوتی ہیں اور کرسیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ یہاں ”جسکی لاٹھی اسکی بھینس“ کی کہاوت نہیں چلتی بلکہ ”جسکی کرسی اسکی جیت “ کی کہاوت چلتی ہے۔ ک سے ”کرسی کرسی کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔ یہ کسی بھی وقت لڑھک سکتی ہے مگر اس پر بیٹھنے والا سمجھتا ہے اس کی چاروں ٹانگیں سلامت و مضبوط ہیں۔ گ سے ”گالی ”عوام الناس“ دیں تو قابل تقصیر ”خواص الناس“ دیں تو قابل تعظیم ل سے ”لیڈر پاکستان جو 1947ءمیں ہمارے لیڈروں کیلئے بنا اور 1971ءمیں ہمارے لیڈروں ہی نے اسے توڑا۔ ہمارے لیڈروں کا مستقبل کیا ہوگا: یہی انداز سیاست ہے تو کل کا لیڈر برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا م سے “منشور ہر پارٹی کا ایک ہی منشور .... آ و مل کر پاکستان کو لُو ٹیں ن سے ”نیکیاں نیکیاں وہ ہوتی ہیں جو ہمارے رہنما دریا میں ڈالتے ہیں۔ انہوں نے اتنی نیکیاں دریا میں ڈالیں ہیں کہ پورا دریا بھر گیا ہے۔ ہم نے خود دیکھا دریا میں نیکیاں ہی نیکیاں تھیں پانی ختم تھا۔ ی سے ”یوم آزادی آزادی .... کیسی آزادی؟ آزادی کے پردے میں ایک زنداں چھپا ہے۔__________________
__________________
Kami kis shae ki hai tere khazaane me mere Allah Jhukaa ke sar jo maangun teri rehmat mil hi jaaegi... |
The Following 2 Users Say Thank You to sara soomro For This Useful Post: | ||
Engr.Aftab (Monday, May 18, 2009), Tahir Mehmood Shahzad (Saturday, September 26, 2009) |
#10
|
||||
|
||||
Great Sara Jee! Keep it up! We expect much more of the same kind
__________________
"Remeber that the most beautiful things in the world are the most USELESS; Peacock and Lilies, for example." Amn Aziz Khan |
The Following User Says Thank You to azix_zee For This Useful Post: | ||
Tahir Mehmood Shahzad (Saturday, September 26, 2009) |
|
|