CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Poetry & Literature (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/)
-   -   لفظ میرے صدیوں تک گونجیں گے (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/103432-1604-1601-1592-1605-1740-1585-1746-1589-1583-1740-1608-1722-1578-1705-1711-1608-1606-1580-1740-1722-1711-1746-a.html)

SADIA SHAFIQ Friday, August 14, 2015 08:13 AM

لفظ میرے صدیوں تک گونجیں گے
 
[font="palatino linotype"][center][size="5"]

میری اک تازہ غزل

لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا
ایک پل میں سہا ہے درد صدیوں کا

ساز کی لے پہ سر دھنتی رہی دنیا
تار نے جو سہا ہے درد صدیوں کا


چھیڑ ! اب پھر سے ،اے مطرب! وہی دھن تُو۔۔۔!
اب کہ نغمہ بنا ہے درد صدیوں کا


گیت میرے سنیں گے لوگ صدیوں تک
شاعری نے جیا ہے درد صدیوں کا


ہوش کر ساز کا قوال تو اپنے۔۔!
ہر کسی کو دیا ہے درد صدیوں کا۔۔۔!


میرا نغمہ ، مرا سُر ، ساز بھی اپنا
آئنہ سا بنا ہے درد صدیوں کا

میری ہی دُھن پہ محوِ رقص ہے کوئی ۔۔؟
ساز کس کا بنا ہے درد صدیوں کا ؟[/size][/center][/font]

Cogito Ergo Sum Saturday, September 12, 2015 05:14 PM

Bohat khoob!

I never knew this forum could have such wonderful poets among its usual members! Accept genuine and deserved appreciation from a fellow poet. Keep writing. :)

SADIA SHAFIQ Saturday, October 10, 2015 04:35 PM

[center][font="palatino linotype"][size="5"]
وصلِ موجِ سوز نے جو دیوانہ کیا
اب ٹھکانہ میرا بھی ویرانہ کیا

قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے کچھ اس طرح یارانہ کیا۔

نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
الجھنوں نے بےطرح دیوانہ کیا

رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
اب اجل نے دار پر مستانہ کیا
:
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے مجھے پروانہ کیا

شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
رب! گلہ تجھ سے جو گستاخانہ کیا

صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے حال سے بیگانہ کیا



​[/size][/font][/center]

SADIA SHAFIQ Saturday, October 10, 2015 04:38 PM

[font="palatino linotype"][size="5"][center]

جمال والا ،وصالِ صورت نظر میں آئے
مراد ہو پوری حسن سیرت نظر تو آئے


فگار دل ہوں، جلائے شعلہ مجھے سدا یہ!
جلن بڑھے ! نورِ حق بصیرت نظر تو آئے



لگاؤں حق کا میں دار پر چڑھ کے ایک نعرہ
مجھے زمانے کی اب حقارت نظر تو آئے


کہ نعش میری بہائی جائے جلا کے جب تک
دھواں مرا سب کو حق کی صورت نظر تو آئے​



کٹے مرا تن کہ خوں ' پڑھے میراکلمہ'' لا ''کا
کہ خواب میں بھی یہی عبارت نظر تو آئے



میں جو کہوں وہ عمل مری ذات کا بنے گر!
حسیں خَلق کی بھی مجھ میں طینت نظر تو آئے


[/center][/size][/font]

SADIA SHAFIQ Wednesday, September 14, 2016 03:40 PM

[font="palatino linotype"][size="4"]


جفا کا نام مت لے ، یاں وفا سے کام چلتے ہیں
وہی دنیا میں باقی رہتے جو مر کے بھی جیتے ہیں

ملی معراج ھو سے ، عکسِ ھو میں ذات ہےموجود
کمالِ رقص بسمل میں ہی ہم اپنا اوج پاتے ہیں

رموزِ عشق ہجرت کی بدولت کھولتے ہیں ہم
ہمی قالو بلی کے رقص میں اکثر جو رہتے ہیں

نمودِ ہست کی فطرت کے جلتے دیے رہنے
قلندر پر ازل کے پردے سارے فاش ہوتے ہیں

ازل کے نور نے مجذوبیت بخشی ، ہوں مثلِ بحر
تلاطم خیزی سے طوفان میری گھبرا جاتے ہیں​

[/size][/font]

SADIA SHAFIQ Wednesday, September 14, 2016 03:41 PM

[font="palatino linotype"]ازل نے کی ابد کی جستجو مقامِ ھو تلک
جنوں کو مل ہے جائے آبرو مقامِ ھو تلک

فلک کا نور جب وجود میں سما رہا تھا تب
خودی میں آئنہ تھا روبرو مقام ھو تلک​

نبی کی میم کی کہانی الف کی مثال ہے
خلق جو آئنہ ہوا ہےھو مقام ھو تلک

حسن ، حسین یہ علی کے ہیں چمن کے لالہ زار
انہی سے ہستی کی ہوئی نمو مقامِ ھو تلک​

دریچے دل کے وا ہوئے ہےبکھرا سحر چار سو
درود سے ملا ہے رنگ و بو مقامِ ھو تلک

جو عفو کی مثال ہیں وہ فاطمہ کمال ہیں
ملا ہے ان سے اوج نورؔ کو مقامِ ھو تلک

مجھے ہے زعمِ شعر گوئی وہ کہ مسکرائے جائے
قلم ہے چلتا جب رسائی ہو مقامِ ھو تلک[/font]

SADIA SHAFIQ Wednesday, September 14, 2016 03:43 PM

[size="5"][/size][font="palatino linotype"][b]

خبر نہیں تھی جانے کیسے لہروں میں گھرے
بھنور کی کیا مجال یہ ہمیں ڈبو چلے

کہاں کہاں تلک مجھے اڑان مل سکے
ترے یہ صید جال بچھنے چار سو لگے!

یہ کیسا دھوکہ زندگی ہے! کون جانے ہے !
دکھاوا یہ خوشی کا جانے کب تلک چلے !

کمان سے جو تیر نکلا ، سینے میں کھبا
تری نگہ سے کتنے دل فگار ہو چلے

قصور روشنی کا تو ہے، جو اندھیروں میں
اجالے کی تلاش میں ادھر ادھر پھرے

پہاڑوں پہ چڑھنے کی لگن نے مات دی
مگر لو عشق کی بھی دھیمی دھیمی ہے جلے

ہمارے حصے دشت کی لکھی سیاہی ہے
اسی لیے بھی تارکِ رہ ہونے ہیں لگے

سیاہ رات میں ہی آگہی کے چاند سے
بجھے چراغ ذات کے ستارے تھے بنے
​[/b][/font]

ahsandanishktk Monday, October 24, 2016 10:44 PM

[QUOTE=SADIA SHAFIQ;870440][font="palatino linotype"][size="5"][center]

جمال والا ،وصالِ صورت نظر میں آئے
مراد ہو پوری حسن سیرت نظر تو آئے


فگار دل ہوں، جلائے شعلہ مجھے سدا یہ!
جلن بڑھے ! نورِ حق بصیرت نظر تو آئے



لگاؤں حق کا میں دار پر چڑھ کے ایک نعرہ
مجھے زمانے کی اب حقارت نظر تو آئے


کہ نعش میری بہائی جائے جلا کے جب تک
دھواں مرا سب کو حق کی صورت نظر تو آئے​



کٹے مرا تن کہ خوں ' پڑھے میراکلمہ'' لا ''کا
کہ خواب میں بھی یہی عبارت نظر تو آئے



میں جو کہوں وہ عمل مری ذات کا بنے گر!
حسیں خَلق کی بھی مجھ میں طینت نظر تو آئے


[/center][/size][/font][/QUOTE]
Some lines deserved to be appreciated in poetic sense but i wld like to add that some lines are ignored to be more classic but still "wah"
[QUOTE=SADIA SHAFIQ;967227][font="palatino linotype"][size="4"]


جفا کا نام مت لے ، یاں وفا سے کام چلتے ہیں
وہی دنیا میں باقی رہتے جو مر کے بھی جیتے ہیں

ملی معراج ھو سے ، عکسِ ھو میں ذات ہےموجود
کمالِ رقص بسمل میں ہی ہم اپنا اوج پاتے ہیں

رموزِ عشق ہجرت کی بدولت کھولتے ہیں ہم
ہمی قالو بلی کے رقص میں اکثر جو رہتے ہیں

نمودِ ہست کی فطرت کے جلتے دیے رہنے
قلندر پر ازل کے پردے سارے فاش ہوتے ہیں

ازل کے نور نے مجذوبیت بخشی ، ہوں مثلِ بحر
تلاطم خیزی سے طوفان میری گھبرا جاتے ہیں​

[/size][/font][/QUOTE]


Sent from my QMobile A3 using Tapatalk

SADIA SHAFIQ Sunday, January 22, 2017 08:35 PM

[size="5"][font="comic sans ms"]
زندگی میں سب کچھ لُٹا چکنے کے بعد امید کے پہلو میں بیٹھے محبت کے نئے رنگوں سے کھیل رہی ہوں .افق پر قزح کے رنگوں نے دُنیا کی خوبصورتی بڑھا دی ہو جیسے ۔۔۔! امنگوں کے جاگنے سے من کے سمندر نے سپیوں کو پالیا ہو جیسے ۔۔۔! کچھ ایسے گمانوں میں جھومتی روح نے اداسی کو چادر کو سلیقے سے اوڑھنے کا سلیقہ سیکھ لیا ہے . ایک نئی ہستی کی تکمیل پرانے اجزاء ترکیبی سے ہو جائے اور اسکو نئے رنگوں سے گوندھا جائے تو کالا رنگ اترتے دیر نہیں لگتی . کائنات کی ناتمامی کو کالے رنگ کی چادر سے پردہ ڈال دیا ہے اور کہیں تکمیل شدہ اجزائے ترکیبی پر کالا رنگ چڑھا دیا گیا ہے . اس رنگ کے مابین یقین اور بے یقینی کی فضا پھیلا دی گئی . جب حجاب اٹھتا ہے تو ست رنگی بہار وجود کو چار اوڑھ لپیٹ لیتی ہے جبکہ امید کو استقلال میں ڈھلنے، صبر کو عزم کی تصویر بننے ، عشق کو تعبیر بننے کے لیے خاک کو جس خمیر سے گوندھا گیا ہے وہ خمیر بھی حجاب رکھتا ہے . ایسا حجاب جس کے چار اوڑھ اندھیرا ہے اور اندھیرے پر مٹی کا لباس ... زندگی میں سب کچھ لٹا چکنے کے بعد میرے پاس ایک ہی سرمایہ بچا ہے وہ سرمایہ حیات محبت کی تقسیم ہے جس کو ہر انس کی فطرت میں رکھا گیا ہے مگر تقسیم امید کے چراغ اپنانے سے ملتی ہے ... میں ان چراغوں سے افق پر قزح کے رنگوں کو دیکھ رہی ہوں اور طمانیت کا احساس رگ وپے میں سرائیت کرگیا ہے​


انسان اپنی دُھن ، لگن کی خاطر نفع لینے سے نقصان ملتا چلا جائے تاہم ہستی اسی سمت پر جستجو کے رنگ بکھیرتی چلی جائے تو بس مقصد حیات فوت ہوجاتا ہے . ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ ہستی کیوں ادھوری ہے تو کیونکر معلوم ہو کہ تکمیل کے ثمرات کیا ہیں ۔ناتمامی پہ ماتم ! اپنی تکمیل کس لیے ہو؟ تکمیل وصل سے ہوتی ہے۔وصل کی گھڑی سے پہلے اُداسی کی انتہا سے گزرنا پڑتا ہے .اسی اداسی کی مثال موسم خزاں کی سی ہے جیسے خزاں میں پتے چر چراتے ہیں اور ہُو کے عالم میں کالا رنگ اوڑھے خاکی پتلا گھومے جا رہا ہے ! اپنی ناتمامی کا ماتم ! کیسا ماتم؟ تکمیل کے دائرے سے اختلاف مقاصد کو سمت دیتا ہے اور پرواز کے بعد آزمائش ہوتی ہے . اس آزمائش کے بعد وصل مل جاتا ہے ! خاک کی موت ہوجاتی ہے اور حیات دوامی ،وجود فانی کی منزلیں عطا ہوجاتی ہیں تب زبان پر 'اسم َ حق ' لا فانی ذات کا ذکر شروع ہوجاتا ہے .آنکھ تب تک روتی ہے جب تک اس کو موت کی سند عطا نہیں ہوتی ہے .

جن جذبات کو قرطاس پہ تحریر دیکھنا چاہتی ہے ، قرطاس اس معیار پر پورا اتر نہیں رہا ہے ! قرطاس کو چاندی کے ورق میں ڈھالا جاتا ہے اور چاند کی روشنی میں رکھے جانے کے بعد ماہتاب کے سائے میں پرورش کی جاتی ہے یہاں تک کہ خورشید مثل خورشید ، چاند مثل چاند اور چاندنی چار سُو اوراق سے پھیلنے لگتی ہے . ان اجزائے ترکیبی سے کی نمود ہستی تب سہ سکتی ہے جب بھنور میں رہنا سیکھ لے اور بات اس نہج کو پہنچے کہ بھنور کی کیا مجال ہمیں ڈبو چلے !

قندیل کی روشنی نرم نرم سبز پتوں کی ودیعت ہے ! وہ پتے جن کو زیتون کے درخت سے نسبت ہے ! یہ ارواح کی قندیل اس سر سبز سدا بہار نور کے چراغ سے وصال کے بعد روشن رہتی ہے ! یہ ابد کا سفر ہے جو بعد فنا کے عطا ہوتا ہے جس پر قرطاس سے لکھوایا گیا کہ ازل نے کی ابد کی جستجو مقام ھو تلک ، جنوں کو مل ہے جائے آبرو مقام ھو تلک ............................... یہ آئنے جو دھندا لا جاتے ہیں ! یہ آئنے جو ٹوٹ جاتے ہیں ، یہ آئنے جن کی روشنی کھونے لگتی ہے مگر جستجو جاری رہتی ہے ! ایسے آئنے ازل کے نور سے سیراب کیے جاتے ہیں اور ان کو اوج فنا کے بعد بقا ، حیات دوامی کی وہ منزل مل جاتی ہے جس کے بعد نہ تو تو رہا ، نہ میں میں رہا............ کا تذکرہ کیا جاتا ہے ......... ایسا کیوں ہے ! ایسا کیوں ہے ؟منزلیں فنا ہوجاتی ہیں ،جستجو مٹتی نہیں ہے، سکندری مل بھی جائے تو گداگری کی طلب رہتی ہے ! کون جانے کے ازل نے ، ازل کے ٹکرے کو ادھورا کردیا ! وچھوڑا دے کے اس کی کمر توڑ دی ! عجز کی لاٹھی عطا کردی ، بڑھاپے نے فقر سے پناہ پکڑ لی اور مسافر کو پڑاؤ کی جگہ پر پڑاؤ کرنے سے روک دیا ! اسے کہا گیا کہ ابھی سفر کر ! اے میرے ہمنشیں ! ابھی سفر کر ! ابھی کوزہ گر سے ملنا ہے !​
[/font][/size]

SADIA SHAFIQ Sunday, January 22, 2017 08:36 PM

[font="palatino linotype"][size="5"][left][center][center]
فراق و وصل سے پرے یہ ایسا اک مقام ہے
نظر نہ آئے وہ ، جو رہتا مجھ میں ہم کلام ہے

نظر مکاں سے لامکاں تلک جو میری ہے گئی
عجب ہی رنگ و بو کا چار سو وہ انتظام ہے

یہ بیچ راہ کا ہے کھیل کب تلک یہ بھی چلے
تری نگہ کے تیر سہنا عشق میں جو عام ہے

بدن کی قید میں جوپارہ تھا ، وہ اب چٹک گیا
بکھرنا روشنی کا ُاس کے ملک کا نظام ہے

فلک تلک رسائی نورؔ کو ملی بھٹک بھٹک
یہ بعد موت کے لگا بڑا مجھے مقام ہے​

[/center][/center][/left][/size][/font]


08:27 AM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.