noor,u,din jahangir
وفات: 1627ء
نورالدین جہانگیراکبر اعظم کے تین لڑکےتھے۔ سلیم ، مراد اور دانیال۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ سلیم اکبر کی وفات پر نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ 1605ء میں اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں۔ کان اور ناک اور ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزائیں منسوخ کیں۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال حکماً بند کیا۔ کئی ناجائز محصولات ہٹا دیے۔ خاص خاص دنوں میں جانوروں کا ذبیحہ بند کردیا۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے اپنے محل کی دیوار سے ایک زنجیر لٹکا دی۔ جسے زنجیر عدل کہا جاتا تھا۔ 1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوںکےگورو ارجن دیو بھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آگئے۔ 1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نے میواڑ کے رانا امرسنگھ کو شکست دی۔ 1620ء میں کانگڑہ خود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میں قندھار کا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میں انگریز سر ٹامس رو سفیر کے ذریعے ، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی ۔ کیونکہ نورجہاں اپنے داماد شہریار کو ولی عہد بنانے کی کوشش کررہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہوگئی۔
جہانگیر مصوری اور فنون لطیفہ کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتاب توزک جہانگیری میں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخری دنوں میں بیمار رہتا تھا۔ 1627ء میں کشمیر سے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ لاہور کے قریب شاہدرہ میں دفن ہوا
__________________
Mere fana honay mei meri fana ka fana hona ha
Ar meine apni fanaa mei ae khuda tujhy payaa...!
|