View Single Post
  #2  
Old Thursday, October 26, 2006
farooq_haider22's Avatar
farooq_haider22 farooq_haider22 is offline
Member
 
Join Date: Sep 2006
Location: peacland
Posts: 54
Thanks: 2
Thanked 3 Times in 3 Posts
farooq_haider22 is on a distinguished road
Default

ریحانہ بستی والا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، ممبئی





ہم نے جسم کی نمائش کے بجائے ستر پوشی کی ہے: ٹیچرز
ممبئی میں ایک ایسا اسلامی اسکول بھی ہے جہاں غیر مسلم خواتین ٹیچرز بھی برقعہ پہنتی ہیں۔ وہ اسی حجاب کے ساتھ صبح سے شام تک سکول میں رہتی ہیں، کلاسیں لیتی ہیں اور اب انہیں پردے کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ مرد اسٹاف کی آواز سنتے ہی مشینی انداز میں ان کا ہاتھ نقاب کی طرف جاتا ہے اور چہرہ پردہ سے ڈھک جاتا ہے۔
وسطی ممبئی میں مجگاؤں کے علاقہ میں واقع ’الجمیتعہ الفکریہ اسلامک انگلش سکول‘ میں انتالیس برقعہ پوش ٹیچرز میں سے یہ پہچاننا مشکل تھا کہ کون غیر مسلم ہیں۔ شالنی پاٹل (نام تبدیل ) نے نقاب اٹھا کر تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ شالنی ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ برقعہ انہوں نے اپنی دوست حمیدہ کے ساتھ جا کر مسلم علاقہ سے خریدا ہے۔ ’شروع میں اسے پہننے میں تکلیف ہوئی کیونکہ سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ کیسے پہنا جائے، پھر ساتھیوں نے مدد کی اور اب تو عادت ہو گئی ہے۔‘

شالنی مراٹھی خاندان سے ہیں۔ وہ سکول میں سائنس اور انگریزی پڑھاتی ہیں۔ جب اسکول میں ملازمت کے لیئے انٹرویو کے دوران کہا گیا کہ انہیں ڈریس کوڈ کے طور پر برقعہ پہننا پڑے گا تو وہ خود کو تیار نہیں کر پائیں۔ گھر جا کر والدین سے مشورہ کیا۔ والدین نے سکول انتظامیہ سے بات کی اور جب احساس ہوا کہ یہاں برقعہ صرف ڈریس کوڈ کے طور پر پہننا ہے اور بقیہ سکولوں کی طرح ہی یہاں طلباء کو پڑھانا ہے تو والدین راضی ہو گئے۔

ہیما نے اس سکول میں کام کرنا اس لئے پسند کیا کہ یہاں انہیں اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی۔ رفتہ رفتہ انہیں یہاں کا ماحول پسند آنے لگا۔ ’یہاں لوگ بہت محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں، مجھے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میں ان سے الگ ہوں۔‘


بہت محفوظ
اس طرح میں غیرمردوں کی نظروں سے محفوظ رہتی ہوں ورنہ ان کی گھورتی نگاہیں اکثر تکلیف دیتی تھیں اور پھر غصہ آتا تھا لیکن آپ ان کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتے۔ میں برقعہ میں خود کو بہت محفوظ سمجھتی ہوں۔


شالنی
شالنی یہاں دو سال سے پڑھا رہی ہیں اور اب انہیں برقعہ پہننا اچھا لگتا ہے۔’اس طرح میں غیرمردوں کی نظروں سے محفوظ رہتی ہوں ورنہ ان کی گھورتی نگاہیں اکثر تکلیف دیتی تھیں اور پھر غصہ آتا تھا لیکن آپ ان کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتے۔ میں برقعہ میں خود کو بہت محفوظ سمجھتی ہوں۔‘

یہی احساس ہیما مئیکر میں بھی جاگا ہے۔ لیکن انہیں ایک بات ضرور پریشان کرتی ہے کہ ان کے رشتہ داروں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ برقعہ لیتی ہیں اور ان کے گھر والے بھی یہ نہیں چاہتے کہ کسی کو اس بات کی بھنک بھی ہو۔ گھر سے وہ سب اپنے لباس میں آتی ہیں سکول کے گیٹ پر پہنچنے سے قبل ہی وہ اپنا سر ڈھانک لیتی ہیں اور پھر سکول میں ٹیچرز روم میں پہنچ کر برقعہ پہن لیتی ہیں۔

برقع پہن کر رہنے میں تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ پورا سکول ایئرکنڈیشنڈ ہے

ہیما مراٹھی اور ہندی کی ٹیچر ہیں جبکہ سچترا لائبریرین ہیں۔ کیا انہیں یہ ماحول پسند ہے؟ اس سوال کے جواب میں شالنی اور ہیما نے کہا کہ اس سے پہلے انہیں لگتا تھا کہ برقعہ پوش لڑکیاں غریب گھرانوں کی ان پڑھ اور پرانے خیالات کی لڑکیاں ہوتی ہیں لیکن یہاں آکر انہیں لگا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی۔

شالنی کو مسلمانوں کا ایک ساتھ مل کر کھانا ایک دوسرے کے لئے محبت کا جذبہ بہت پسند ہے۔ ’میں ان بچوں سے اور اسٹاف ممبران سے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں۔ میں کبھی مشترکہ خاندان میں نہیں رہی لیکن اب لگتا ہے کہ ساتھ رہنے میں بہت سے سکھ ملتے ہیں۔ میں پہلے اپنے والدین کو پلٹ کر جواب دیا کرتی تھی لیکن اب ان کا احترام کرنا سیکھ گئی ہوں۔‘

کیا پردہ شالنی، ہیما اور ان کی دیگر غیرمسلم ساتھیوں کے لئیے شادی میں رکاوٹ نیں بنے گا؟ اس پر شالنی نے فوراً کہا ’ہمسفر سمجھدار ہو تو ہی زندگی خوشگوار ہوتی ہے۔ اسے سمجھنا چاہیئے کہ ہم نے جسم کی نمائش کے بجائے ستر پوشی کی ہے اور یہ اچھی بات ہے۔ اس میں مذہب کہیں بھی آڑے نہیں آتا ہے۔‘

’دن بھر برقعہ پہن کر رہنے میں تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ پورا سکول ایئرکنڈیشنڈ ہے اس لئے گرمی نہیں ہوتی اور اب تو اس کی عادت ہو گئی ہے۔‘

اسکول کی سپروائزر شیریں کہتی ہیں کہ وہ سٹاف کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ اسکول چونکہ پورے دن رہتا ہے اس لئے انہیں کھانا بھی یہیں ملتا ہے۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ جو ٹیچرز گوشت نہیں کھاتے ان کے لیئے خصوصی طور پر سبزیاں بنتی ہیں۔ ’ہم انہیں یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ یہاں الگ ہیں۔‘

گیارہ جولائی کو جوٹرین دھماکے ہوئے تھے تب یہ تمام غیر مسلم ٹیچرز تین دن تک اسکول میں ہی تھیں اور ان کے والدین نے انہیں سب سے زیادہ محفوظ سمجھا۔


پریشان ہیں
سب باتوں کے باوجود سب اس بات سے پریشان ہیں کہ کہیں کسی روز ان کے رشتہ داروں کو یہ پتہ نہیں چل جائے کہ وہ برقعہ پہنتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بار بار کہا کہ ان کے اصل نام شائع نہ کیے جائیں۔



ان سب باتوں کے باوجود سب اس بات سے پریشان ہیں کہ کہیں کسی روز ان کے رشتہ داروں کو یہ پتہ نہیں چل جائے کہ وہ برقعہ پہنتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بار بار کہا کہ ان کے اصل نام شائع نہ کیے جائیں۔

’الجمعیتہ الفکریہ اسلامک اسکول‘ انگلش میڈیم ہے جہاں بین الاقوامی معیار پر یعنی کیمبرج اور ریاستی بورڈ کے طرز پر تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن یہ اسکول ان انگریزی اور انٹرنشینل سٹینڈرڈ اسکولوں سے دو لحاظ سے مختلف ہے۔ یہاں کورس میں عربی ، اردو ، فارسی اور حفظ قرآن کی کلاسز بھی ہوتی ہیں اور دوسرے یہ کہ خواتین ٹیچرز کے ڈریس کوڈ میں برقعہ بھی شامل ہے۔


سہیل کہتے ہیں کہ انہیں غیر مسلم ٹیچرز رکھنے کی وجہ سے کچھ مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی لیکن وہ اس کے آگے نہیں جھکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لڑکیاں انٹرویو کے لئے آئی تھیں ان میں انہوں نے ان کی صلاحیت کی بناء پر ان کا انتخاب کیا جس وجہ سے انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔



ٹیچرز کے لئے ڈریس کوڈ کے طور پر برقعہ ہی کیوں ؟ اس کے جواب میں سکول کے بانی سہیل شیخ کا کہنا تھا ’ہمارے بچے کانوینٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، اس لیئے ہمیں یہ خیال آیا کہ اسی طرز پر اگر اسلامی سکول شروع کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اور پھر جب اسکول میں بچیوں کو برقعہ پہنایا جاتا ہے تو پھر ان کے سامنے ٹیچرز بے پردہ کیسے رہ سکتی ہیں کیونکہ بہرحال ٹیچرز ہی طلباء کے رول ماڈل ہوتے ہیں۔‘

سہیل کہتے ہیں کہ انہیں غیر مسلم ٹیچرز رکھنے کی وجہ سے کچھ مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی لیکن وہ اس کے آگے نہیں جھکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لڑکیاں انٹرویو کے لئے آئی تھیں ان میں انہوں نے ان کی صلاحیت کی بناء پر ان کا انتخاب کیا جس وجہ سے انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔



may u read it.........
thanks for ur information.
__________________
aM i RigHt?
Reply With Quote