زندگی
پيدائش
:
1925
انتقال
:ستمبر
2004 ء
اشفاق احمداردو افسانہ نگار۔ ڈرامہ نگار ۔ نثر نگار ۔لاہور ميں پيدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ايم اے کيا، اڻلی کی روم يونيورسڻی اور گرے نوبلے يونيورسڻی فرانس سے اطالوی اور فرانسيسی زبان ميں ڈپلومے کيے، اور نيويارک يونيورسڻی سے براڈکاسڻنگ کی خصوصی تربيت حاصل کی۔ انہوں نے ديال سنگه کالج لاہور ميں دو سال تک اردو کے ليکچرر کے طور پر کام کيا اور بعد ميں روم يونيور ڻ سی ميں اردو کے استاد مقرر ہوگۓ۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کيا جو اردو کے آفسٹ طباعت ميں چهپنے والے ابتدائی رسالوں ميں شمار کيا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزه ليل و نہار کی ادارت بهی کی۔
وه انيس سو سڑسڻه ميں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائري ڻ کر مقرر ہوئے جو بعد ميں اردو سائنس بورڈ ميں تبديل ہوگيا۔ وه انيس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وه صدر جنرل ضياءالحق کےدور ميں وفاقی وزارت تعليم کے مشير بهی مقرر کيے گۓ۔اشفاق احمد ان نامور اديبوں ميں شامل ہيں جو قيام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نماياں ہوئے اور انيس سو ترپن ميں ان کا افسانہ گڈريا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو ميں پنجابی الفاظ کا تخليقی طور پر استعمال کيا اور ايک خوبصورت شگفتہ نثر ايجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجهی جاتی ہے۔ اردو ادب ميں کہانی لکهنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تها وه کم لوگوں کے حصہ ميں آيا۔
ايک محبت سو افسانے اور اجلے پهول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہيں۔ بعد ميں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کهيل تماشا (ناول) ، ايک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نماياں تصانيف ہيں۔ انيس سو پينسڻه سے انہوں نے ريڈيو پاکستان لاہور پر ايک ہفتہ وار فيچر پروگرام تلقين شاه کے نام سے کرنا شروع کيا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تيس سال سے زياده چلتا رہا۔ ساڻه کی دہائی ميں اشفاق احمد نے دهوپ اور سائے نام سے ايک نئی طرح کی
فيچر فلم ب ا نئی جس کے گيت مشہور شاعر منير نيازی نے لکهے اور طفيل نيازی نے اس کی موسيقی ترتيب دی تهی اور اداکار قوی خان اس ميں پہلی مرتبہ ہيرو کے طور پر آئے تهے۔ اس فلم کا مشہور گانا تها اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دريا اور بدريا چهائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامياب ہوگئی۔ ستر کی دہائی کے شروع ميں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ايک محبت سو افسانے کے نام سے ايک ڈرامہ سيريز لکهی اور اسی کی دہائی ميں ان کی سيريز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا ميں وه تصوف کی طرف مائل ہوگۓ اور ان پر خاصی تنقيد کی گئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں ميں پلاٹ سے زياده مکالمے پر زور ديتے تهے اور ان کے کردار طويل گفتگو کرتے تهے۔ کچه عرصہ سے وه پاکستان ڻيلی وژن پر زاويے کے نام سے ايک پروگرام کرتے رہے جس ميں وه اپنے مخصوص انداز ميں قصے اور کہانياں سناتے تهے۔ جگر کی رسولی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔