View Single Post
  #4  
Old Thursday, August 18, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Taimoor Gondal Taimoor Gondal is offline
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default پنجاب کا دوپڻہ

جب آدمی ميری عمر کو پہنچتا ہےتو وه اپنی وراثت آنے والی نسل کو دے کر جانے کی کو شش کرتا ہے
- کچه چيزيں ايسی ہوتی ہيں، جو انسان بد قسمتی سے ساته ہی سميٹ کر لے جاتا ہے- مجهے اپنی جوانی کے واقعات اور اس سے پہلے کی زندگی کے حالات مختلف ڻکڑيوں ميں ملتے ہيں- ميں چاہتا ہوں کہ اب وه آپ کے حوالے کر دوں- حالانکہ اس ميں تاريخی نوعيت کا کوئی بڑا واقعہ آپ کو نہيں ملے گا ليکن معاشرتی زندگی کو بہ نظرِ غائر ديکها جائے تو اس ميں ہماری سياسی زندگی کے بہت سے پہلو نماياں نظر آئيں گے۔ آج سے کوئی بيس بائيس برس پہلے کی بات ہے ميں کسی سرکاری کام سے حيدرآباد گيا تها۔ سنده ميں مجهے تقريبا ايک ہفتے کے لئے رہنا پڑا، اس لئے ميں نے اپنی بيوی سے کہا کہ وه بهی ميرے ساته چلے، چنانچہ وه بهی ميرے ساته تهی- دو دن وہاں گزارنے کے بعد ميری طبيعت جيسے بے چين ہو گئی-ميں اکثراس حوالے سے آپ کی خدمت میں بابوںکا ذکر کرتا ہوں- ميں نے اپنی بيوی سے کہا کہ بهٹ شاه (شاه عبدالطيف بهڻائی ) کا مزار يہاں قريب ہی ہے اور آج جمعرات بهی ہے، اس لئے آج ہم وہاں چلتے ہيں- وه ميری بات مان گئی- ميزبانوں نے بهی ہميں گاڑی اور ڈرائيور دے ديا، کيونکہ وه راستوں سے واقف تها- ہم مزار کی طرف روانہ ہو گئے- جوں جوں شاه عبدالطيف بهڻائی کا مزار قريب آ رہا تها، مجه پر ايک عجيب طرح کا خوف طاری ہونے لگا- مجه پر اکثر ايسا ہوتا ہے- ميں علم سے اتنا متأثر نہيں ہوں، جتنا کريکڻر سے ہوں- علم کم تر چيز ہے، کردار بڑی چيز ہے- اس لئے صاحبانِ کردار کے قريب جاتے ہوئے مجهے بڑا خوف آتا ہے- صاحبانِ علم سے اتنا خوف نہيں آتا، ڈر نہيں لگتا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بہت سے لوگ ايک ميلے کی صورت ميں ان کے مزار کے باہر موجود تهے- گهوم پهر رہے تهے- ہم مياں بيوی کافی مشکل سے مزار کے صحن ميں داخل ہوئے- بہت سے لوگ وہاں بيڻهے ہوئے تهے اور شاه عبدالطيف بهڻائی کا کلام سنا رہے تهے-اس کلام ميں جب شاه کی شاعری ميں موجود ايک خاص ڻکڑا آتا تو سارے سازندے چوکس ہو کر بيڻه جاتے اور گانے لگتے۔ کلام ميں يہ خاص ڻکڑا اس قدر مشکل اور پيچيده ہے کہ وہاں کے رہنے والے بهی کم کم ہی اس کا مطلب سمجهتے ہيں، ليکن اس کی گہرائی زمانے کے ساته ساته کُهلتی چلی جاتی ہے- ہم بهی وہاں ايک ديوار کے ساته لگ کر کهڑے ہو گئے- وہاں کافی رش تها- کچه لوگ زمين پر ليڻے ہوئے تهے- عورتيں، مرد سب ہی اور کچه بيڻهے کلام سن رہے
تهے
- ہم بهی جا کر بيڻه گئے- جب شاه کی وائی ( مخصوص ڻکڑی ) شروع ہوتی تو ايک خادم دهات کے بڑے بڑے گلاسوں ميں دوده ڈال کر تقسيم کرتا- يہ رسم ہے وہاں کی کہ جب وائی پڑهتے ہيں تو دوده تقسيم کيا جاتا ہے- گلاس بہت بڑے بڑے تهے، ليکن ان ميں تولہ ڈيڑه تولہ دوده ہوتا- جب اتنا بڑا گلاس اور اتنا سا دوده لا کر ايک خادم نے ميری بيوی کو ديا، تو اُس نے دوده لانے والے کی طرف بڑی حيرت سے ديکها اور پهر جهانک کر گلاس کے اندر ديکها- ميں نے اُس سے کہا کہ دوده ہے پی لو- ميں نے اپنے گلاس کو ہلايا- ميرے گلاس کے اندر دوده ميں ايک تنکا تها- ميں اُس تنکے کو نظر انداز کرتا تها، ليکن وه پهر گهوم کر سامنے آ جاتا تها- ميں نے يہ فيصلہ کيا کہ ميں دوده کو تنکے سميت ہی پی جاتا ہوں-چنانچہ ميں نے دوده پی ليا اور اپنی بيوی سے کہا کہ آپ بهی پئيں، يہ برکت کی بات ہے۔ خير! اسُ نے زبردستی زور لگا کر پی ليا اور قريب بيڻهے ہوئے ايک شخص سے کہا کہ آپ ہميں تهوڑی سی جگہ ديں- اُس شخص کی بيوی ليٹ کر اپنے بچے کو دوده پلا رہی تهی- اُس شخص نے اپنی بيوی کو ڻہوکہ ديا اور کہا کہ مہمان ہے، تم اپنے پاؤں پيچهے کرو- ميری بيوی نے کہا کہ نہيں نہيں، اس کو مت اڻُهائيں- ليکن اسُ شخص نے کہا،نہيں نہيں کوئی بات نہيں- اُس کی بيوی ذرا سمٹ گئی اور ہم دونوں کو جگہ دے دی- انسان کا خاصہ يہ ہے کہ جب اُس کو بيڻهنے کی جگہ مل جائے، تو وه ليڻنے کی بهی چاہتا ہے-جب ہم بيڻه گئے تو پهر دل چاہا کہ ہم آرام بهی کريں اور ميں آہستہ آہستہ کهسکتا ہوا پاؤں پسارنے لگا- فرش بڑا ڻهنڈا اور مزيدار تها- ہوا چل رہی تهی- ميں نيم دراز ہو گيا- ميری بيوی نے تهوڑی دير کے بعد کہا کہ ميں چکر لگا کر آتی ہوں، کيونکہ يہ جگہ تو ہم نے پوری طرح ديکهی ہی نہيں- ميں نے کہا ڻهيک ہے- وه چلی گئی- دس پندره منٹ گزر گئے، وه واپس نہ آئی تو مجهے انديشہ ہوا کہ کہيں گُم ہی نه ہو جائے، کيونکہ پيچيده راستے تهے اور نئی جگہ تهی۔

جب وه لوٹ کر آئی تو بہت پريشان تهی- کچه گهبرائی ہوئی تهی- اُس کی سانس پهولی ہوئی تهی- ميں نے کہا، خير ہے! کہنے لگی آپ اڻُهيں ميرے ساته چليں- ميں آپ کو ايک چيز دکهانا چاہتی ہوں- ميں اُڻه کراُس کے ساته چل پڑا- وہاں رات کو دربار کا دروازه بند کر ديتے ہيں اور زائرين باہر بيڻهے رہتے ہيں- صبح جب دروازه کُهلتا ہے تو پهر دعائيں وغيره مانگنا شروع کر ديتے ہيں- جب ہم وہاں گئے تو اسُ نے ميرا ہاته پکڑ ليا اور کہنے لگی، آپ ادهر آئيں- شاه کے دروازے کے عين سامنے ايک لڑکی کهڑی تهی- اُس کے سر پر جيسے ہمارا دستر خوان ہوتا ہے، اس سائز کی چادر کا ڻکڑا تها اور اُس کا اپنا جو دوپڻہ تها وه اُس نے شاه کے دروازے کے کنڈے کے ساته گانڻه دے کر باندها ہوا تها اور اپنے دوپڻے کا آخری کونہ ہاته ميں پکڑے کهڑی تهی اوربالکل خاموش تهی۔ اسُے آپ بہت ہی خوبصورت لڑکی کہہ سکتے ہيں۔ اُس کی عمر کوئی سولہ،ستره يا اڻهاره برس ہو گی- وه کهڑی تهی، ليکن لوگ ايک حلقہ سا بنا کر اُسے تهوڑی سی آسائش عطا کر رہے تهے تاکہ اُس کے گرد جمگهڻا نہ ہو- کچه لوگ، جن ميں عورتيں بهی تهيں، ايک حلقہ سا بنائے کهڑے تهے- ميں نے کہا، يہ کيا ہے؟ ميری بيوی کہنے لگی، اس کے پاؤں ديکهيں- جب ميں نے اسُ کے پاؤں ديکهے تو آپ يقين کريں کہ کوئی پانچ سات کلو کے- اتنا بڑا ہاتهی کا پاؤں بهی نہيں ہوتا- بالکل ايسے تهے جيسے سيمنٹ، پتهر يا اينٹ کے بنے ہوئے ہوں- حالانکہ لڑکی بڑی دهان پان کی اور دُبلی پتلی سی تهی- ہم حيرانی اور ڈر کے ساته اُسے ديکه رہے تهے، تو وه منہ ہی منہ ميں کچه بات کر رہی تهی- وہاں ايک سندهی بزرگ تهے- ہم نے اُن سے پوچها کہ آخر يہ معاملہ کيا ہے؟ اُس نے کہا، سائيں! کيا عرض کريں- يہ بيچاری بہت دُکهياری ہے- يہ پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہے اور ہمارے اندازے کے مُطابق مُلتان يا بہاولپور سے ہے- يہ گياره دن سے اسی طرح کهڑی ہے اور اس مزار کا بڑا خدمتگار، وه سفيد داڑهی والا بُزرگ، اس کی منت سماجت کرتا ہے تو ايک کهجور کهانے کے لئے يہ منہ کهول ديتی ہے، چوبيس گهنڻے ميں- ميری بيوی کہنے لگی کہ اسے ہوا کيا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ اس کے بهائی کو پهانسی کی سزا ہوئی ہے اور يہ بيچارگی کے عالم ميں وہاں سے چل کر يہاں پہنچی ہے اور اتنے دن سے کهڑی ہے اور ايک ہی بات کہہ رہی ہے کہ اے شاه! تُو تو لله کے راز جانتا ہے، تُو ميری طرف سے اپنے ربّ کی خدمت ميں درخواست کر کہ ميرے بهائی کو رہائی ملے اور اس پر مقدّمہ ختم ہو-“ وه بس يہ بات کہہ رہی ہے- شاه اپنی ايک نظم ميں فرماتے ہيں کہ اے لوگو! چودهويں کے چاند کو جو بڑا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے، پہلی کے چاند کو جو نظر بهی نہيں آتا اور لوگ چهتوں پر چڑه کر اُنگليوں کا اشاره کر کے اسے ديکهتے ہيں- يہ کيا راز ہے تم ميرے قريب آؤ ميں تمهيں چاند کا راز سمجهاتا ہوں ( يہ شاه عبدالطيف بهڻائی کی ايک نظم کا حصّہ ہے) وه لڑکی بهی بيچاری کہيں سے چل کر چلتی چلتی پتا نہيں اس نے اپنے گهر والوں کو بتايا بهی ہے کہ نہيں، ليکن وه وہاں پہنچ گئی ہے اور وہاں کهڑی تهی- چونکہ رات کو مزار کا دروازه بند ہو جاتا ہے، اس لئے کوئی کنکشن نہيں رہتا، اس نے اپنا دوپڻہ اتُار کر وہاں بانده رکها ہے- وه بابا بتا رہا تها کہ اب اس کا چلنا مشکل ہے- بڑی مشکل سے قدم اُڻها کر چلتی ہےاور ہم سب لوگ اس لڑکی کے لئے دعا کرتے ہيں- ہم اپنا ذاتی کام بهول جاتے ہيں اور ہم اس کے لئے اور اس کے بهائی کے لئے لله سائيں سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہيں کہ لله تُو اس پر فضل کر- کتنی چهوڻی سی جان ہے اور اس نے اپنے اوپر کيا مصيبت ڈال لی ہے- ميں کهڑا اس لڑکی کو ديکه رہا تها- اُس کا دوپڻہ اگر سر سے اُتر جاتا تو وہاں کے لوگ اپنے پاس سے اجرک يا کوئی اور کپڑا اُس کے سر پر ڈال ديتے- ميں اس کو ديکهتا رہا- مجهے باہر ديکهنا، وائی سننا اور دوده پينا سب کچه بهول گيا- ميں چاہتا تها کہ اس سے بات کروں، ليکن ميرا حوصلہ نہيں پڑ رہا تها، کيونکہ وه اتنے بلُند کردار اور طاقت کے مقام پر تهی کہ ظاہر ہے ايک چهوڻا، معمولی آدمی اس سے بات نہيں کر سکتا تها- ہميں وہاں کهڑے کهڑے کافی دير ہو گئی- ہم نے ساری رات وہاں گزارنے کا فيصلہ کيا- ہم نے ساری رات اس لڑکی کےلئےدعائيں کيں- بس ہم اس کے لئے کچّی پکّی دعائيں کرتے رہے۔ صبح چلتے ہوئے ميں نے اپنی بيوی سے کہا کہ
جب تک پنجاب کا دوپڻہ شاه عبدالطيف بهڻائی کے کُنڈے سے بندها ہے پنجاب اور سنده ميں کسی قسم کا کريک نہيں آسکتا
- يہ تو اپنے مقصد کے لئے آئی ہے نا، ليکن مقصد سے ماورا بهی ايک اور رشتہ ہوتا ہے- ميری بيوی کہنے لگی، کيوں نہيں، آپ روز ايسی خبريں پڑهتے ہيں کہ يہ سنده کارڈ ہے، يہ پنجاب کارڈ ہے- جب ايک چودهری ديکهتا ہے کہ لوگوں کی توجّہ ميرے اوپر
ہونے لگی ہے اور لوگ ميرے بارے ميں
Critical ہونے لگے ہيں، تو وه پهر کہتا ہے اے لوگو! ميری طرف نہ ديکهو- تمهارا چور پنجاب ہے- دوسرا کہتا ہے، نہيں! ميری جانب نہ ديکهو تمهارا چور سنده ہے، تاکہ اس کے اوپر سے نگاہيں ہڻيں، ورنہ لوگوں کے درميان وہی اصل رشتہ قائم ہے جو مُلتان يا بہاولپور سے جانے والی لڑکی کا شاه کے مزار سے ہے، جو اکيلی تن تنہا، سوجے پاؤں بغير کسی خوراک کے کهڑی ہوئی ہے اس کا اعتقاد اور پورا ايمان ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو گا- اپنی ايک نظم ميں شاه فرماتے ہيں کہ اے کمان کسنے والے تُو نے اس ميں تير رکه ليا ہے اور تُو مجهے مارنے لگا ہے، ليکن ميرا سارا وجود ہی تيرا ہے، کہيں توُ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Ali Randhava (Thursday, August 18, 2011), Arain007 (Friday, August 19, 2011)