View Single Post
  #12  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Farrah Zafar Farrah Zafar is offline
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


ثقافتی یلغار:اسلامی ثقافت کی تشکیل میں بنیادی عناصر

’ ثقافتی یلغار ‘ کے عنوان سے مضامین کا یہ سلسلہ حضرت آیت اللہ استاد علامہ محمد تقی مصباح یزدی کی1990ءسے 1994ءتک کی تقاریر پر مشتمل فارسی کتاب ”تہاجم فرہنگی“ کا ترجمہ ہے کہ جس میں آپ نے قرآن ، تاریخ اور عصر حاضر کے موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں موجود شواہد و قرائن کی روشنی میں ثقافتی یلغار کے اصل اہداف ، دشمن کی روش و طریقہ کار اور اس جنگ سے دفاع اور حفاظت کی راہ حل پر گفتگو فرمائی ہے۔

ہمارے عقیدے کے مطابق اس معاشرے میں کہ جہاں اسلام مکمل طور پر حاکم ہو تو وہاں معرفت و شناخت اور عقائد کے ایک مجموعہ سمیت اسلام کے نزدیک قابل قبول اخلاقی اور اجتماعی اقدار موجود ہوتی یں جو ہم آہنگ اور مرتب انسانی رفتار و کردار کا باعث بنتی ہیں۔ یہ شناخت و معرفت اور اقدار ہی ہیں کہ جن سے ایک خاص قسم کی نظم وہم آہنگی کی حامل رفتار و عمل جنم لیتے ہیں اور یہی معرفت اور اقدار اسلامی ثقافت کو تشکیل دیتے ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ تمام امور اس معاشرے سے مربوط ہیں کہ جہاں اسلام مکمل طور پر حاکم ہو۔ چنانچہ اگر کچھ اسلامی ممالک کے معاشروں کی ثقافت اس قسم کے ہم آہنگ اور مرتب رفتار و کردار سے متصف نہیں ہے تو اس کا سبب اسلامی ثقافت میں بیگانی طاقتوں کی ثقافت کے عناصر کے نفوذ کی وجہ سے ان ممالک کی ثقافت کا ناخالص اور مخلوط ہونا ہے جو نتیجے میں ایسے معاشروں کی ثقافتوں کو مخلوط بنا دیتا ہے اور یہ ”دو گانگی اور دہریت“ اسلامی وحدت اور اسلامی ثقافت کے ایک ہونے سے ہر گز ساز گار نہیں ہے۔

مغربی فلسفہ ¿ ثقافت اور اسلامی معاشروں میں اس کا تخریبی کردار

مغرب کی ثقافتی یلغار سے مقابلے کی پہلی شرط مغربی ثقافت اور اس کے فلسفے کی شناخت ہے لہٰذا اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں مغربی فلسفہ¿ ثقافت، اس کے تخریبی کردار کو بیان کررہے ہیں ۔
اس بحث کو شروع کرنے سے قبل ایک مختصر سے مقدمہ کا ذکر لازمی ہے اور وہ یہ ہے کہ عصر حاضر کی موجودہ ثقافت میں یعنی اس عصر انقلاب میں آج جو چیز مغرب کی طرف نسبت دی جاتی ہے وہ دراصل ایک منفی پہلو ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس جانب بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ مغرب کی طرف نسبت دینے والے اس منفی پہلو سے ہماری مراد خدائی اور اسلامی تعلیمات اور معنوی اقدر کی ضد اور مکالفت میں پیدا ہونے والے وہ آثار ہیں جو مغربی تمدن و ثقافت میں وجود میں آئے ہیں ۔

یہ موضوع نہ تو مغرب کے جغرافیائی ماحول سے مربوط ہے کہ جو بھی اس خطے میں زندگی بسر کرے گا وہ حتماً اس قسم کے گناہ و انحرافات کا شکار ہوگا اور نہ ہی تاریخ مختلف ادوار میں مغربی ثقافت ایسی حالت کا شکار رہی ہے کہ جس میں ہمیشہ اس قسم کے گناہوں اور برائیوں کا وجود رہا ہو اور نہ ہی آج یہ بات ایک عام قانون کی حیثیت رکھتی ہے ۔ لیکن مغرب کی استعماری ثقافت کے ہمارے ملک میں نفوذ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اکثر برائیوں کی دلیل کی بناءپر ہم اسے اختصار کے طور پر مغربی ثقافت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ورنہ تو آج بھی مغرب میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اس ثقافت کے مخالف ہیں جیسا کہ گزشتہ زمانے میں بہت سے افراد اس کے مخالف تھے۔

آج ہم جو مغرب کے اس فلسفہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقافت کی مذمت کرتے ہیں تو اس کی وجہ اس کا ”میٹریل ازم یا مادہ پرستی“ سے جنم لینا ہے۔ اگرچہ وہ خود اس بات کا نہ تو اظہار کرتے ہیں اور ناہی صراحت سے اسے بیان کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور طاہراً مسیحیت کے پیروکار ممالک کہ جہاں ہراتوار کو کلیسا میں عبادت انجام دی جاتی ہے ، کی ثقافت اور ان پر مسلط فلسفہ، مادی رجحان رکھتا ہے ۔ یہ ثقافت کس زمانے میں وجود میں آئی اور کن مکاتب اور نظریات کی پیدائش کا سبب بنی اور اس طرز فکر کے کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ بحث بذات خود ایک تاریخی تحلیل کا تقاضا کرتی ہے۔

موجودہ مغربی ثقافت کی پیدائش
کے علل و اسباب
جو چیز شہرت رکھتی ہے اور کم و بیش حقیقت سے بھی نزدیک ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ فکر و نظر پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ کے زمانہ رینیسانس (Renaissance) کے بعد وجود میں آئی ہے۔ رینیسانس یعنی یورپ میں موجود قدیم یونانی تہذیب و تمدن میں بنیادی تبدیلیوں کے نتیجے میں (مختلف علوم و فنون ، ادبیات، فلسفہ اور سائنس وغیرہ میں) پیدا ہونے والی تبدیلیاں اور ان علمی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والا سترہویں صدی کا صنعتی انقلاب اور نئے جنم کا زمانہ۔ یعنی قرون وسطیٰ کے بالکل بعد کہ جب کلیسا سے وابستہ مذہبی افراد علمی اختراعات اور کشفیات کرنے والی شخصیتوں اور دانشمندوں سے متعصبانہ رویہ رکھتے تھے۔

اس زمانے میں کلیسا کے بارے میں مغرب کے عام افراد اور عیسائی مذہب میں نفرت کی ایک عمومی فضا بن گئی تھی۔ اس ماحول کے وجود میں آنے کے بعد مغربی ادیب، دانشور شخصیات اور مفکر اس فکر میں پڑ گئے کہ اس آئین مسیحیت جو ان کے گمان میں ان کی فکری عقب ماندگی کا موجب بنا ہے، سے کنارہ کشی اختیار کریں اور قدیم مغربی تمدن کی پیش رفت یعنی ” یونانی دور“ میں لوٹ جائیں ۔

رینیسانس کسی خاص فلسفہ کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا محور دراصل مغرب میں کلیسا کے تسلط و کنٹرول کہ جسے قرون وسطیٰ کا نام دیا جاتا ہے، کے زمانے سے قبل قدیم مغربی تمدن کی طرف بازگشت ہے ۔ یہ ٹھیک وہی زمانہ ہے کہ جب مغربی ادبیات کا غیر مذہبی مفاہیم اور لادینیت پر مشتمل نکات کو محور و مرکز بنانے والے مطالب کی طرف رجحان بڑھ رہا تھا۔ تمام ادبی اور ہنری آثار، کتابیں، نقادی اور مجسمہ سازی وغیرہ قدیم یونانی تمدن کی ادبیات اور ہنر کی طر لوٹ رہے تھے۔

اس زمانے کے بعد یورپ میں تراشے جانے والے مجسمے نیم عریانی حالت سے مکمل عریانیت کی طرف قدم بڑھانے لگے اور یہی وہ زمانہ ہے کہ جب مجسمے مکمل عریاں اور نیم عریاں حالت میں تراشے جانے لگے یہی وجہ ہے کہ حضرت مریمؑ کے بنائے جانے والے مجسمے بھی اس زمانے کے مجسموں سے مختلف ہیں اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے مجسمے بھی سربرہنہ شکل میں بنائے جانے لگے۔

کلیسا کی قیدو بند سے آزادی اور دنیائے صنعت و حرفت میں ہونے والی جدید علمی اختراعات کے مقابلے میں اس کی زور زبردستی کی روش اور اس کے نتیجے میں مغربی معاشرے میں سر اٹھانے والی بے بندوباری کے ساتھ مغربی عوام، مذہب اور مذہبی تعلیمات و آثار سے متنفر ہوگئے۔ اس اہم مسئلے کے ساتھ ساتھ گزشتہ دوتین صدیوں میں خصوصاً صلیبی جنگوں کے بعد مسیحیوں نے اسلامی تمدن و ثقافت سے آشنائی حاصل کی، وہ اسلامی دانشوروں، مفکروں اور اسلامی فلسفے کی کتابوں سے بہرہ مند ہوئے اور اس استفادے کے نتیجے میں مغربی ثقافت نکھر کر سامنے آئی۔

ابتداءمیں یہ نکھار اور پیش رفت، اسپین اور اس کے بعد فرانس میں سامنے آئی اور اس کے بعد علمی اور صنعتی ترقی نے معاشرے کو تسخیر کیا۔ مذہب و مسیحیت کے دینی تعصب اور علمی و صنعتی ترقی پر کلیسا کی سخت تنقید کے نتیجے میں مغربی عوام کے دل کی گہرائیوں میں جنم لینے والی نفرت کی روح اس بات کا سبب بنی کہ وہاں کے عام و خاص افراد نے مذہب کے دائرہ کار کو مادی زندگی سے رابطہ نہ رکھنے والے امور تک محدود کردیا۔ چونکہ یہ لوگ ایک طرف سے مذہب کو بالکل خیر آباد نہیں کہہ سکتے تھے، اس لئے کہ مذہب کی جڑیں ان کی فطرت میں موجود تھیں اور ان کی باطنی ضروریات کو بھی پورا کرتی تھیں اور دوسری طرف سے قرون وسطیٰ کے معاشرے میں حاکم مذہب ان کی (مادی اور ترقی یافتہ) زندگی سے متصادم تھیں اور مذہب کے نام سے پیش کی جانے والی کلیسا کی تعلیمات، علم اور علمی ترقی کی مخالف تھیں۔

ان چیدہ چیدہ دلائل کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب کو لوگوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی میں کسی قسم کا سروکار نہ رکھنے والے غیر دنیوی(غیر مرئی اور نظر نہ آنے والے ، غیب اور آخرت جیسے دیگر) امور تک محدود کردیں۔ لوگ کلیسا ضرور جائیں لیکن وہاں صرف خدا سے دعا کریں، اپنے گناہوں پر طلب مغفرت کریں، وہاں موجود فقیروں یا پادریوں کو تحفے دیں اور ان کی مدد کریں یعنی مذہب صرف کلیسا کی چار دیواری تک محدود رہے اور زندگی کے بقیہ تمام امور اور شعبوں میں اس کا کوئی مقام نہ ہو۔

یہ ہے جدید مغربی فکر و ثقافت کا محور، اور وہ بھی ان افراد کے لئے جودین، مسیحیت اور خدا اور وحانیت پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یہ ہے ان کے جدید افکار و نظریات کہ انسان کی روز مرہ کی زندگی میں دین و مذہب کی کوئی جگہ نہیں اور دین کو صرف کلیسا تک ہی محدود رہنا چاہیے! اسلامی اور مشرقی ممالک میں ان استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے اور سازشوں کے نتیجے میں ”دین کی سیاست سے جدائی“ کے مسئلے کا پھیلنا بالکل اسی فکر سے جنم لیتا ہے۔

ایران میں بھی ”زمانہ¿ مشروطیت“ میں مغرب زدہ ایرانی روشن فکر افراد نے اگر اس مسئلے کو اٹھایا ہے، اگر اس کے اجراءو نفاذ کی کوششیں کیں ہیں اور افسوس یہ ہے کہ پہلوی دور حکومت میں وہ دین کو سیاست سے عملی طور پر جدا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں تو ان سب کی وجہ مغرب کی یہی دین دشمنی اور دین کو عبادت گاہوں تک محدود کرنے کی سازش وسیاست ہے۔

مغربی ثقافت سے مخالفت کی اصل وجہ
ہم مغربی فلسفہ اور ثقافت کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ ہم ”مشرقی“ ہیں اور ہمیں اپنے مشرقی تشخص کی لازمی حفاظت کے لئے مغرب کی مخالفت کرنی چاہیے اور نہ ہی اس دلیل کی بنا پر اس کے مخالف ہیں کہ مغرب سے آنے والی ہر شئے (خ¶اہ مادی ہو یا غیر مادی) آلودہ اور اچھی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ان کی مخالفت اس دلیل کی بناءپر ہے کہ مغربی ثقافت کہ جس سے ہم مقابلہ کررہے ہیں ، مادیت کی طرف میل و رجحان رکھتی ہے حتیٰ وہاں بھی کہ جہاں مذہب کا نام آتا ہے۔ اس مغربی فکر کی سب سے بہترین صورت، سیاست اور زندگی کے مختلف شعبوں سمیت قانون کی تشکیل سے دین کی دوری اور جدائی ہے۔ انہوں نے معاشرے اور اجتماع سے دین نکال دیا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قانون بنانا لوگوں کا حق ہے نا کہ خدا کا اور اس قانون کا نفاذ بھی خود انہی عوام کے ہاتھوں اور ان کے نمائندوں کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ حکم خدا کے مطابق۔

اسی طرح بقیہ دیگر مسائل میں بھی یہی فکر موجود ہے: مثلاً کہتے ہیں کہ ”لازمی نہیں ہے کہ اخلاقی ، مذہبی ہو!“ انہوں نے اس بات کے لئے بھی کوشش کی ہے کہ اخلاق و اخلاقیات کو بھی دین سے الگ کردیں اور یہ کہیں کہ ”اخلاقی مفاہیم کا دینی مفاہیم سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے کچھ اخلاقی مفاہیم کو قبول کیا ہوا ہے اور وہ اس کی اہمیت کے قائل ہیں تو ان کے اس عقیدے کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بے دین ہو لیکن اخلاقی اصولوں کا مکمل پابند اور پرکار بند ہو۔“

پس مغربی فلسفہ سے مراد ایسا فلسفہ نہیں ہے جو ایک خاص جغرافیائی علاقے سے منسوب ہو بلکہ وہ چیز اسلامی فکر کے اصول و اساس کی مخالف ہے ، وہ مادیت کی طرف رجحان اور جھکاﺅ ہے ، خواہ وہ دین یا سیاست سے دین کی جدائی اور قوانین خدا سے انسانی زندگی کی آزادی کے نام سے ہی کیوں نہ سامنے آئے وہ ”مغربی ثقافت‘ ‘ ہی کہلائے گی اور ہم ایسی ثقافت و افکار و نظریات کی مذمت کرتے ہیں ۔

بنا برایں ، اگر ہم مغربی ثقافت کی مخالفت کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہم مشرقی ہیں اور اپنے مشرقی تشخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں اور نہ جغرافیائی لحاظ سے ہماری ان سے دوری کی وجہ سے۔ اسی طرح ہماری ان کی مخالفت اس بناءپر بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی معاشرتی زندگی میں خاص رسوم و آداب کے حامل ہیں کہ جہاں ایک شخص سلام کرتا ہے تو دوسرا سرسے ٹوپی اتار کر سر ہلا کر جواب دیتا ہے ! نیز ہم یہ بھی دعویٰ نہیں کرتے کہ جو چیز بھی مغرب سے وارد کی جاتی ہے وہ کثیف، آلودہ اور نجس ہے! جیسا کہ پوری تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ پورا مغرب گناہوں اور برائیوں میں گھرا رہاہو اور آج بھی اس قانون کو کلیت حاصل نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی فی نفسہ ہماری ان کی مخالفت کا سبب نہیں ہے بلکہ مغربی ثقافت سے ہمارا اختلاف، مغربی ثقافت کے مختلف ابعاد و جہات کی وجہ سے ہے جو برائیوں کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں اور اخلاقی انحطاط و زوال اور انسانیت کے سقوط کا باعث ہیں ۔

ہمارے ملک میں بھی مغربی استعمار کے ثقافتی حملے اور اس کے نفوذ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں کہ جسے مختصر تعبیر میں ”مغربی ثقافت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، سے انقلابی اور بیدار مسلمان جنگ کررہے ہیں ۔ مسلم طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خواہ ماضی ہو یا حال، مغرب میں بھی ایسے انسانوں کا وجود رہا ہے اور آج بھی ہے کہ جو ایسی ثقافت کے سختی سے مخالف ہیں۔


http://nawa-e-islam.com/?p=8863
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!

Last edited by Farrah Zafar; Friday, February 03, 2012 at 10:08 PM. Reason: highlighted headings
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
siddiqui88 (Saturday, February 04, 2012), SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)