Monday, April 29, 2024
11:23 AM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Compulsory Subjects > Islamiat > Islamiat Notes

Islamiat Notes Islamiat notes here

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #11  
Old Wednesday, February 01, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


کیا مسلمانوں کی تنزلی کے ذمہ دار دینی مدارس اور علماء ہیں ؟
مصنف: بنیاد پرست


ایک اردو بلاگر جناب فکر پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اپنے بلاگ پر یہاں علماءاور اسلام پر بلاوجہ تنقید کا رستہ نکالتے ہوئے امت کے زوال کا سبب علماءاور مدارس کو ٹھہرایا ۔ میں انکے اٹھائے گئے کچھ پوائنٹس کا جواب دینے چاہتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ فکر پاکستان صاحب جو زبان بول رہے ہیں وہ انکی مجبوری ہے، یہ جس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے متعلق میں بنیاد پرستی یا مذہب پرستی میں بھی لکھ چکا ہوں کہ اس مذہب بیزار طبقہ کا کام ہی ہر جگہ علمائے اسلام کی توہین اور تنقید کی راہ نکالنا ہے۔ آپ ان کی یہ پوسٹ ہی دیکھ لیں جناب فکر پاکستان نے پہلے فرمایا کہ سقوط بغداد کے وقت علما مناظروں میں مصروف تھے، جب ان سے اس قول مجہول کا ریفرنس مانگا گیا تو انہوں نے ادھر ادھر قلابازیاں مارنی شروع کردیں اور آخر تک اپنی بات کا حوالہ نہیں پیش کرسکتے ۔انکی علمی حیثیت ملاحظہ فرمائیں کہ علماءکو مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرانے کے دلائل میں مسلم عیاش حکمرانوں کے حالات گنوانے شروع کردیے۔موصوف نے موضوع سے ہٹ کر جو پوائنٹس اٹھائے انکے متعلق میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

کیا مناظرہ کرنا ناجائز فعل ہے؟

فکر پاکستان صاحب نے علمائے اکرام کا مناظرہ کرنے کو ایسے بیان کیا ہے کہ جیسے یہ کوئی معیوب بات ہے ۔حقیقت میں مناظرہ ایک قرآنی حکم ہے جس کا مقصد گمراہ لوگوں، فرقوں سے بحث ومباحثہ کر کے انکے غلط نظریات و عقائد کی حقیقت کو عوام کے سامنے بیان کرنا ہوتا ہے تاکہ عوام بھی گمراہی سے بچ جائیں اور مخالف فرقہ کو بھی ہدایت کی راہ نصیب ہو۔ یہ مناظرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیے اور انکے بعد بھی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے علمائے حق کرتے آرہے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کا فتنہ خلق القرآن اور مجدد الف ثانی رحمہ کے مسئلہ وحدت الوجوو شہود کےمناظرے مشہور ہے۔ مطلب مناظرے کرنا کوئی عیب کی بات نہیں۔

مدارس سے سائنسدان اور انجنئیر کیوں نہیں تیار ہورہے؟

جناب فکر پاکستان صاحب کو اعتراض ہے کہ علما اور مدارس سائنسدان، انجنیر کیوں نہیں تیار کررہے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں آپ کی یونیورسٹیاں علما اور مذہبی سکالر کیوں نہیں تیار کررہیں۔ جناب کا سوال ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ IBA, karachi ڈاکٹرز کیوں نہیں تیار کررہی، LUMS , Lahore سے سائنسدان کیوں نہیں تیار ہورہے۔ بھئی جس کا جو شعبہ ہے وہ وہی تیار کرے گی نا۔ مدارس کی ذمہ داری باعلم و عمل مذہبی سکالر تیار کرنے کی تھی، آپ اس پر بات کریں کہ کیا انہوں نے اپنے شعبہ کا حق ادا کیا یا نہیں ؟
جہاں تک مدارس و علما کی جدید تعلیم کا تعلق ہے اس کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مدارس میں جدید تعلیم کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ جامعہ الرشید کراچی جو اپنے شعبہ فلکیات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور نے’ علما کے لیے ایم بی اے ڈگری کا سلسلہ شروع کیا ، جس کا تیسرابیج فارغ ہورہا ہے۔ اس طرح اسی مدرسے نے دنیاوی جدید تعلیم یافتہ جوانوں کے لیے کلیۃ الشریعہ کے نام سے چار سال میں عالم بنانے کا کورس شروع کیا ۔ اس کا بھی چوتھا بیج چل رہا ہے۔
کیا یونیورسٹی اور کالج بھی اپنے جوانوں کو اس طرح کی تعلیم دے رہے ہیں ؟
کیا آج ہمارے ملک کی تباہی کے ذمہ دار سارے طبقے کا تعلق مدارس کے بجائے آپکی کالجوں، یونیورسٹیوں سے نہیں ہے۔؟

میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر ہمارے معاشرے میں اسلام کی تھوڑی سی جھلک نظر آرہی ہے وہ انہی لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنی تمام خواہشوں کو قربان کرتے ہوئے اپنی زندگیاں صرف اسلام کی ترویج و اشاعت و دفاع کے لیے وقف کردیں ہیں۔ میں اپنی بات کی ایک دلیل پیش کرتا ہوں۔ یورپ اور امریکہ میں آج سے ستر، اسی سال پہلے جو مسلمان جا کر آباد ہوئے، آپ آج جا کر انکے حالات دیکھیں، وہاں مدارس و مساجد کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے آج ان میں سے بہت سوں کی اولادیں مذہب تبدیل کر گئیں ہیں، جو بچے گئے ہیں ان میں بھی سوائے اسلامی نام کے کوئی مسلمانوں والی علامت نہیں ملتی۔ پچھلے تیس سالوں میں افریقی ممالک میں چالیس فیصد سے زائد مسلمان عیسائی ہوچکے ہیں۔ مسئلہ کیا ہوا ؟ وہاں اسلامی، ایمانی چارجنگ کا نظام میسر نہیں تھا، وہاں علما و مدارس موجود نہیں تھے جو عیسائی مشنریوں کی اس یلغار کا مقابلہ کرتے۔

علماء کا معاشرے میں کردار

جب سے ذرائع ابلاغ واعلام پر باطل قوتوں اور یہودی دماغوں کا تسلط ہوا،تب سے سچ کو جھوٹ ،جھوٹ کو سچ کہنے ،مکروفریب کو دیانت وامانت کے پیرھن میں پیش کرنے اور نیک کو بد،بدکو نیک کے روپ میں ملفوف کرنے کا گورکھ دھندا روزافزوں ترقی پر ہے۔اس غلط پروپیگنڈے اور تزویری ڈھنڈورے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ”راہنمایان ملت وقوم“ کی کردار کشی اور ان کی خدمات جلیلہ ومفیدہ سے صرف نظر کرکے ان کے وجود مسعود پر انگشت نمائی کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کی نسبتی کڑیاں اور لڑیاں اس نبی آخرالزماں سے جاملتی ہیں جن کی آمد کی خبر پاکرظلمتوں کواجالوں کی کرن ملی۔جو اپنے بعد نورتوحید کی ضیا پاشی کے لیے ”نفوس قدسیہ“کی ایسی کھیپ وجماعت تیار کرگئے ،جن کے علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور ہوتی رہیں،جن کے دم سے جہالت کی شب تاریک کے افق پر معرفت کی صبح صادق طلوع ہوتی رہی۔ان کا وجود ہردورمیں ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾کا مظہر رہا۔”مدینة العلم “صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر علم وآگہی کے” خوشہ چینوں“کو اپنا نائب ووارث قراردے کر امت کے بقیہ طبقات پر ان کی فوقیت وفضیلت کی مہر استناد نقش فرمادی۔

تاریخ سے معمولی شد بد رکھنے والے فرد پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ خلافت بنو امیہ وبنو عباس کے عہد حکمرانی میں ہونے والی اسلامی فتوحات کا سبب جہاں محمدبن قاسم ،عقبہ بن نافع ،موسی بن نصیر اور طارق بن زیادجیسے جرات،بہادری اور غیرت ایمانی کا استعارہ بن جانے والے جرنیل بنے،وہاں ان مفتوحہ ملکوں اور علاقوں میں اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر منوانے کا سہرا ان مجتہدین اور علمائے ربانیین کے سر جاتاہے ،جن کی نتیجہ خیز کوششوں اور کاوشوں نے دین اسلام کی ابدی ودائمی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کی۔ابوحنیفہ ،احمدبن حنبل ،مجدد الف ثانی اور شیخ الہنداسی چمنستان معرفت وآگہی کے وہ گل سرسبد تھے،جنہوں نے اپنے اپنے معاشروں اورادوار میں پائے جانے والے عقائد ورسوم کے مابین حق وباطل ،صدق وکذب اور کھرے وکھوٹے کا فرق وامتیاز لیل ونہار کے تضاد کی طرح دنیاکے سامنے آشکاراکیا۔

آپ صرف برصغیر کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بت کدہ سرزمین پر اسلام کا پھریرا بلند کرنے والے محمد بن قاسم سے لے کر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک اور مولانامحمدقاسم نانوتوی سے لے کر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تک، علماء وصلحاء،مفسرین ومحدثین ،مجاہدین و مبلغین اور فقہاء ومفتیین کی صورت میں ناموں اور کاموں کی ایک ایسی طویل فہرست نظرآئے گی جن کے ایمان وایقان،اخلاص وللہیت،حریت فکراوریقین محکم کی بدولت دنیا بھر میں سینکڑوں مسلمان آج بھی دین و مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل مساجد ومدارس اور ارباب خانقاہ اپنے اوپر عائد ہونے والی پیغمبرانہ نیابت کی ذمہ داریوں کا نہ صرف کما حقہ ادراک رکھتے ہیں، بلکہ اپنی عملی،علمی اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر چراغ سے چراغ جلانے کا عمل پو ری آب وتاب سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ”دین قیم“کو تاصبح قیامت اس دھرتی پر قائم ودائم رہناہے۔اس کی نشرواشاعت،حفاظت وصیانت اور موثر دعوت کے لیے ایسے رجال کار کا ہونا ناگزیر وضروری ہے جو معاشرے اور سماج کو شر کے اوہام باطلہ و خیالات فاسدہ کی گلن اور سڑن سے بچاکرخیر کے افکارونظریات صحیحہ کی خوش بواورمٹھاس سے روشناس کراسکیں۔جو باطل کی ملمع سازی کو لباس حق کی شمشیرفاصل سے چاک کرسکیں ۔جن کے کردار میں میانہ روی ،راست بازی اور صداقت شعاری کی شمع فروزاں ہو۔امت کی چودہ سو سالہ نوشتہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ علوم وحی کے ان وارثوں اور جانشینوں نے زمان ومکان اور حالات کی ادلتی بدلتی اورالٹتی پلٹتی ہواؤں کے دوش بہ دوش چلنے کی بجائے ”قبلہ نما“بن کرملت کی گاڑی کو شاہ راہ ہدایت کی جانب گام زن کرنے کافریضہ مکمل استقامت وعزیمت ،تندہی وجان فشانی اور ہمت وشجاعت کے ساتھ سرانجام دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو علامات واخبارات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک واضح نشانی علم کا اٹھ جانا اور گمراہی کا عام ہوجانا بھی ہے۔

عزیزان من!تھوڑی دیر کے لیے اپنی چشم بیناسے موجودہ زمانے پر نظر عمیق ڈالیے۔دیکھیے،سوچیے اور سمجھیے․․․․․کیا یہ وہی زمانہ اوردورنہیں ؟جس کے بارے میں مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے آ ج سے چودہ صدیاں بیشترخبردی تھی کہ:”بے شک اللہ تعالی علم کو اپنے قبضہ میں ایسے نہیں لیں گے کہ اسے لوگوں کے سینوں سے نکال لیں ،بلکہ علماء کی موت کی صورت میں علم اٹھایا جائے گا۔یہاں تک کہ کوئی ایک عالم باقی نہیں بچے گا۔پھر لوگ ایسے ”سروں “ کو اپنا پیشوا اور مقتدا بنالیں گے جو نرے جاہل ہوں گے،جن سے سوال کیاجائے گا(دین کے بارے میں)تو عدم علم کی بنیاد پر فتوی دیں گے۔پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“

کیا امریکہ بہادر کو ٹیکنالوجی کے بغیر شکست دینا ناممکن ہے ؟

موصوف فرماتے ہیں کہ امریکہ سے مقابلہ کرنےکے لیے برابر قد کا ہونا لازمی ہے۔ مجھے جناب کی اس بات پر کوئی حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ جناب کے نام نہاد روشن خیال مذہب کے بانی جناب سید پرویزی مشرف صاحب بھی یہی بات کرکے ایک کال پر امریکہ بہادر کے آگے "لمے پیں گئے تھے"۔ انہوں نے بھی یہی باتیں کرنیں ہیں۔ جناب کی اس فلاسفی کو اگر ہمارے نبی بھی حق سمجھتے تو کبھی غزوہ بدر کا معرکہ رونما نہ ہوتا۔ ہمارے سامنے موجودہ دور کی زندہ مثال بھی موجود ہے۔ کل مورخہ 8 اپریل ، 2011 کی پاکستانی اخبارات کی سرخیاں پڑھ لیں ، پاکستانی حکومت کا بیان ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کے ہم ذمہ دار نہیں۔ ۔ ۔ جناب مجھے بتائیں طالبان کے پاس کونسی جدید ٹیکنالوجی ہے ؟، انکے پاس کتنے کروز میزائل ہیں ؟، کتنے جدیدفائڑ طیارے ہیں ؟، وہ کونسی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں جو انہوں نے دوسری دفعہ ایک سپر پاور کو ناکوں چنے چبو ا دیے ہیں، آج اس عالمی دہشت گرد کو وہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا وہ پاکستان کو بیچ میں انوالو کر کے اپنی شرمندگی کو چھپانا چارہا ہے۔

مسلمان حکومتوں کی تنزلی کے اصل ذمہ دار :

حقیقت میں مسلمانوں کو ہر دور میں اصل نقصان غداروں نے پہنچایا ہے اس سقوط بغداد کے واقعہ کی وجہ بھی عیاش حکمران اور غدار بنے۔ آج کی طرح اس وقت بھی حکمران سب سے پہلے پاکستان کی نعرہ لگاتے تھے۔ جب بغداد کے ارد گرد کی ریاستیں لٹ رہی تھی تو اس کے حکمران شراب وکباب کی محفلوں میں مصروف تھے اور تاتاریوں کے ساتھ اندر ہی اندر معائدے کرتے ہوئے عوام کو تسلیاں دے رہے تھے کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ آج بھی تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے ۔ افغانستان کے بعد بغداد دوبارہ لٹ گیا ہے اور ہمارے حکمران بھی وہی رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ اقبال کا ایک شعر پیش کرتاہوں، انہوں نے دو مصروں میں قوموں کے اتارو چڑھاؤ کو بیان کردیا ہے۔

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طاؤس ورباب آخر

کہ قومیں جب اٹھتیں ہیں تو انکے ہاں شمشیر و سان کی جھنکار ہوتی ہے اور جب ڈوبتیں ہیں تو ساز ، باجے انکی گٹھی میں پڑ چکے ہوتے ہیں۔تان سین جیسے مراثی انکےآئیڈیل اور بہادر شاہ اور شاہ رنگلیلا جیسے عیاش انکے لیڈر بن چکے ہوتے ہیں۔
آج آپ دیکھ لیں اس قوم کی حالت’ گھر گھر موسیقی ، رقص و لہو و لعب جاری ہے۔ اب تو ٹیلیویژن ٹاک شو میں اس بات پر اصرار کیا جارہا ہے کہ موسیقی حرام نہیں بلکہ حلال ہے اور محتاط رویہ ہے کہ اسے مباح قرار دیا جائے۔ کچھ منچلوں کا خیال یہ بھی ہے کہ موسیقی اگر عام کردی جائے تو پورے عالم کو دہشت گردی سے نجات مل جائے گی۔ مطلب اب سازندوں اور رقاصاؤں اور اداکاروں کو موقع ملنا چاہیے تاکہ اقوام عالم میں امن قائم ہو سکے۔ آپ ذرا چشم تصور سے دیکھیں کہ بُش کو کسی ملک کو دھمکی دینا ہے تو وہ گٹار ہاتھ میں لئے تھرک رہا ہے۔ فلسطینی اور کشمیری مضراب لئے اپنے وطن کی یاد میں نغمہ سرا ہیں ، طالبان کے ہاتھ میں کلاشنکوف کے بجائے تنبورہ ہے۔ شہر جل بھی رہا ہو تو کیا’ سیاست دان سارے یا توتالی پیٹ رہے ہیں یا طبلے پر سنگت دے رہے ہیں ۔ ایک طبقہ کے عقیدہ میں ویسے بھی جہاد جیسی اصطلاح خارج از کتاب ہو چکی ہے۔ سو چین کا سانس لیں ، اورناچتے گاتے زندگی گزاریں۔ہر آدمی کم سے کم خونریزی سے تو محفوظ رہے گا۔ موسیقی کے اثرات میں وحشت ہے دہشت تو نہیں۔ امت کو افیم کھلاکے نہ سہی موسیقی کے ذریعہ ہی سلا دیا جائے تاکہ دوسرے آسانی سے انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ ڈالیں۔اور پھر کسی کو کسی کے کاٹنے یا مارنے کی ضرورت بھی کیوں پیش آئے جب کہ وہ پہلے ہی مردہ ہو چکا ہو ، اب مرے ہوئے کو کیا مارنا۔

نہ صورت ہے مسلمانی نہ سیرت ہے مسلمانی
بھلا اس حال میں پھر کیا ہو تم پر فضل یزدانی
رہے ناکام گو تم کر چکے ہر سعی امکانی
مسلمان بن کے دیکھو کامراں پھر ہو بآسانی

بنیاد پرست: کیا مسلمانوں Ú©ÛŒ تنزلی Ú©Û’ Ø°Ù…Û Ø¯Ø§Ø± دینی مدارس اور علماء Ûیں ؟
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
azmatullah (Thursday, February 02, 2012), most wanted (Monday, July 29, 2013), SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #12  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


ثقافتی یلغار:اسلامی ثقافت کی تشکیل میں بنیادی عناصر

’ ثقافتی یلغار ‘ کے عنوان سے مضامین کا یہ سلسلہ حضرت آیت اللہ استاد علامہ محمد تقی مصباح یزدی کی1990ءسے 1994ءتک کی تقاریر پر مشتمل فارسی کتاب ”تہاجم فرہنگی“ کا ترجمہ ہے کہ جس میں آپ نے قرآن ، تاریخ اور عصر حاضر کے موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں موجود شواہد و قرائن کی روشنی میں ثقافتی یلغار کے اصل اہداف ، دشمن کی روش و طریقہ کار اور اس جنگ سے دفاع اور حفاظت کی راہ حل پر گفتگو فرمائی ہے۔

ہمارے عقیدے کے مطابق اس معاشرے میں کہ جہاں اسلام مکمل طور پر حاکم ہو تو وہاں معرفت و شناخت اور عقائد کے ایک مجموعہ سمیت اسلام کے نزدیک قابل قبول اخلاقی اور اجتماعی اقدار موجود ہوتی یں جو ہم آہنگ اور مرتب انسانی رفتار و کردار کا باعث بنتی ہیں۔ یہ شناخت و معرفت اور اقدار ہی ہیں کہ جن سے ایک خاص قسم کی نظم وہم آہنگی کی حامل رفتار و عمل جنم لیتے ہیں اور یہی معرفت اور اقدار اسلامی ثقافت کو تشکیل دیتے ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ تمام امور اس معاشرے سے مربوط ہیں کہ جہاں اسلام مکمل طور پر حاکم ہو۔ چنانچہ اگر کچھ اسلامی ممالک کے معاشروں کی ثقافت اس قسم کے ہم آہنگ اور مرتب رفتار و کردار سے متصف نہیں ہے تو اس کا سبب اسلامی ثقافت میں بیگانی طاقتوں کی ثقافت کے عناصر کے نفوذ کی وجہ سے ان ممالک کی ثقافت کا ناخالص اور مخلوط ہونا ہے جو نتیجے میں ایسے معاشروں کی ثقافتوں کو مخلوط بنا دیتا ہے اور یہ ”دو گانگی اور دہریت“ اسلامی وحدت اور اسلامی ثقافت کے ایک ہونے سے ہر گز ساز گار نہیں ہے۔

مغربی فلسفہ ¿ ثقافت اور اسلامی معاشروں میں اس کا تخریبی کردار

مغرب کی ثقافتی یلغار سے مقابلے کی پہلی شرط مغربی ثقافت اور اس کے فلسفے کی شناخت ہے لہٰذا اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں مغربی فلسفہ¿ ثقافت، اس کے تخریبی کردار کو بیان کررہے ہیں ۔
اس بحث کو شروع کرنے سے قبل ایک مختصر سے مقدمہ کا ذکر لازمی ہے اور وہ یہ ہے کہ عصر حاضر کی موجودہ ثقافت میں یعنی اس عصر انقلاب میں آج جو چیز مغرب کی طرف نسبت دی جاتی ہے وہ دراصل ایک منفی پہلو ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس جانب بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ مغرب کی طرف نسبت دینے والے اس منفی پہلو سے ہماری مراد خدائی اور اسلامی تعلیمات اور معنوی اقدر کی ضد اور مکالفت میں پیدا ہونے والے وہ آثار ہیں جو مغربی تمدن و ثقافت میں وجود میں آئے ہیں ۔

یہ موضوع نہ تو مغرب کے جغرافیائی ماحول سے مربوط ہے کہ جو بھی اس خطے میں زندگی بسر کرے گا وہ حتماً اس قسم کے گناہ و انحرافات کا شکار ہوگا اور نہ ہی تاریخ مختلف ادوار میں مغربی ثقافت ایسی حالت کا شکار رہی ہے کہ جس میں ہمیشہ اس قسم کے گناہوں اور برائیوں کا وجود رہا ہو اور نہ ہی آج یہ بات ایک عام قانون کی حیثیت رکھتی ہے ۔ لیکن مغرب کی استعماری ثقافت کے ہمارے ملک میں نفوذ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اکثر برائیوں کی دلیل کی بناءپر ہم اسے اختصار کے طور پر مغربی ثقافت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ورنہ تو آج بھی مغرب میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اس ثقافت کے مخالف ہیں جیسا کہ گزشتہ زمانے میں بہت سے افراد اس کے مخالف تھے۔

آج ہم جو مغرب کے اس فلسفہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقافت کی مذمت کرتے ہیں تو اس کی وجہ اس کا ”میٹریل ازم یا مادہ پرستی“ سے جنم لینا ہے۔ اگرچہ وہ خود اس بات کا نہ تو اظہار کرتے ہیں اور ناہی صراحت سے اسے بیان کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور طاہراً مسیحیت کے پیروکار ممالک کہ جہاں ہراتوار کو کلیسا میں عبادت انجام دی جاتی ہے ، کی ثقافت اور ان پر مسلط فلسفہ، مادی رجحان رکھتا ہے ۔ یہ ثقافت کس زمانے میں وجود میں آئی اور کن مکاتب اور نظریات کی پیدائش کا سبب بنی اور اس طرز فکر کے کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ بحث بذات خود ایک تاریخی تحلیل کا تقاضا کرتی ہے۔

موجودہ مغربی ثقافت کی پیدائش
کے علل و اسباب
جو چیز شہرت رکھتی ہے اور کم و بیش حقیقت سے بھی نزدیک ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ فکر و نظر پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ کے زمانہ رینیسانس (Renaissance) کے بعد وجود میں آئی ہے۔ رینیسانس یعنی یورپ میں موجود قدیم یونانی تہذیب و تمدن میں بنیادی تبدیلیوں کے نتیجے میں (مختلف علوم و فنون ، ادبیات، فلسفہ اور سائنس وغیرہ میں) پیدا ہونے والی تبدیلیاں اور ان علمی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والا سترہویں صدی کا صنعتی انقلاب اور نئے جنم کا زمانہ۔ یعنی قرون وسطیٰ کے بالکل بعد کہ جب کلیسا سے وابستہ مذہبی افراد علمی اختراعات اور کشفیات کرنے والی شخصیتوں اور دانشمندوں سے متعصبانہ رویہ رکھتے تھے۔

اس زمانے میں کلیسا کے بارے میں مغرب کے عام افراد اور عیسائی مذہب میں نفرت کی ایک عمومی فضا بن گئی تھی۔ اس ماحول کے وجود میں آنے کے بعد مغربی ادیب، دانشور شخصیات اور مفکر اس فکر میں پڑ گئے کہ اس آئین مسیحیت جو ان کے گمان میں ان کی فکری عقب ماندگی کا موجب بنا ہے، سے کنارہ کشی اختیار کریں اور قدیم مغربی تمدن کی پیش رفت یعنی ” یونانی دور“ میں لوٹ جائیں ۔

رینیسانس کسی خاص فلسفہ کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا محور دراصل مغرب میں کلیسا کے تسلط و کنٹرول کہ جسے قرون وسطیٰ کا نام دیا جاتا ہے، کے زمانے سے قبل قدیم مغربی تمدن کی طرف بازگشت ہے ۔ یہ ٹھیک وہی زمانہ ہے کہ جب مغربی ادبیات کا غیر مذہبی مفاہیم اور لادینیت پر مشتمل نکات کو محور و مرکز بنانے والے مطالب کی طرف رجحان بڑھ رہا تھا۔ تمام ادبی اور ہنری آثار، کتابیں، نقادی اور مجسمہ سازی وغیرہ قدیم یونانی تمدن کی ادبیات اور ہنر کی طر لوٹ رہے تھے۔

اس زمانے کے بعد یورپ میں تراشے جانے والے مجسمے نیم عریانی حالت سے مکمل عریانیت کی طرف قدم بڑھانے لگے اور یہی وہ زمانہ ہے کہ جب مجسمے مکمل عریاں اور نیم عریاں حالت میں تراشے جانے لگے یہی وجہ ہے کہ حضرت مریمؑ کے بنائے جانے والے مجسمے بھی اس زمانے کے مجسموں سے مختلف ہیں اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے مجسمے بھی سربرہنہ شکل میں بنائے جانے لگے۔

کلیسا کی قیدو بند سے آزادی اور دنیائے صنعت و حرفت میں ہونے والی جدید علمی اختراعات کے مقابلے میں اس کی زور زبردستی کی روش اور اس کے نتیجے میں مغربی معاشرے میں سر اٹھانے والی بے بندوباری کے ساتھ مغربی عوام، مذہب اور مذہبی تعلیمات و آثار سے متنفر ہوگئے۔ اس اہم مسئلے کے ساتھ ساتھ گزشتہ دوتین صدیوں میں خصوصاً صلیبی جنگوں کے بعد مسیحیوں نے اسلامی تمدن و ثقافت سے آشنائی حاصل کی، وہ اسلامی دانشوروں، مفکروں اور اسلامی فلسفے کی کتابوں سے بہرہ مند ہوئے اور اس استفادے کے نتیجے میں مغربی ثقافت نکھر کر سامنے آئی۔

ابتداءمیں یہ نکھار اور پیش رفت، اسپین اور اس کے بعد فرانس میں سامنے آئی اور اس کے بعد علمی اور صنعتی ترقی نے معاشرے کو تسخیر کیا۔ مذہب و مسیحیت کے دینی تعصب اور علمی و صنعتی ترقی پر کلیسا کی سخت تنقید کے نتیجے میں مغربی عوام کے دل کی گہرائیوں میں جنم لینے والی نفرت کی روح اس بات کا سبب بنی کہ وہاں کے عام و خاص افراد نے مذہب کے دائرہ کار کو مادی زندگی سے رابطہ نہ رکھنے والے امور تک محدود کردیا۔ چونکہ یہ لوگ ایک طرف سے مذہب کو بالکل خیر آباد نہیں کہہ سکتے تھے، اس لئے کہ مذہب کی جڑیں ان کی فطرت میں موجود تھیں اور ان کی باطنی ضروریات کو بھی پورا کرتی تھیں اور دوسری طرف سے قرون وسطیٰ کے معاشرے میں حاکم مذہب ان کی (مادی اور ترقی یافتہ) زندگی سے متصادم تھیں اور مذہب کے نام سے پیش کی جانے والی کلیسا کی تعلیمات، علم اور علمی ترقی کی مخالف تھیں۔

ان چیدہ چیدہ دلائل کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب کو لوگوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی میں کسی قسم کا سروکار نہ رکھنے والے غیر دنیوی(غیر مرئی اور نظر نہ آنے والے ، غیب اور آخرت جیسے دیگر) امور تک محدود کردیں۔ لوگ کلیسا ضرور جائیں لیکن وہاں صرف خدا سے دعا کریں، اپنے گناہوں پر طلب مغفرت کریں، وہاں موجود فقیروں یا پادریوں کو تحفے دیں اور ان کی مدد کریں یعنی مذہب صرف کلیسا کی چار دیواری تک محدود رہے اور زندگی کے بقیہ تمام امور اور شعبوں میں اس کا کوئی مقام نہ ہو۔

یہ ہے جدید مغربی فکر و ثقافت کا محور، اور وہ بھی ان افراد کے لئے جودین، مسیحیت اور خدا اور وحانیت پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یہ ہے ان کے جدید افکار و نظریات کہ انسان کی روز مرہ کی زندگی میں دین و مذہب کی کوئی جگہ نہیں اور دین کو صرف کلیسا تک ہی محدود رہنا چاہیے! اسلامی اور مشرقی ممالک میں ان استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے اور سازشوں کے نتیجے میں ”دین کی سیاست سے جدائی“ کے مسئلے کا پھیلنا بالکل اسی فکر سے جنم لیتا ہے۔

ایران میں بھی ”زمانہ¿ مشروطیت“ میں مغرب زدہ ایرانی روشن فکر افراد نے اگر اس مسئلے کو اٹھایا ہے، اگر اس کے اجراءو نفاذ کی کوششیں کیں ہیں اور افسوس یہ ہے کہ پہلوی دور حکومت میں وہ دین کو سیاست سے عملی طور پر جدا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں تو ان سب کی وجہ مغرب کی یہی دین دشمنی اور دین کو عبادت گاہوں تک محدود کرنے کی سازش وسیاست ہے۔

مغربی ثقافت سے مخالفت کی اصل وجہ
ہم مغربی فلسفہ اور ثقافت کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ ہم ”مشرقی“ ہیں اور ہمیں اپنے مشرقی تشخص کی لازمی حفاظت کے لئے مغرب کی مخالفت کرنی چاہیے اور نہ ہی اس دلیل کی بنا پر اس کے مخالف ہیں کہ مغرب سے آنے والی ہر شئے (خ¶اہ مادی ہو یا غیر مادی) آلودہ اور اچھی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ان کی مخالفت اس دلیل کی بناءپر ہے کہ مغربی ثقافت کہ جس سے ہم مقابلہ کررہے ہیں ، مادیت کی طرف میل و رجحان رکھتی ہے حتیٰ وہاں بھی کہ جہاں مذہب کا نام آتا ہے۔ اس مغربی فکر کی سب سے بہترین صورت، سیاست اور زندگی کے مختلف شعبوں سمیت قانون کی تشکیل سے دین کی دوری اور جدائی ہے۔ انہوں نے معاشرے اور اجتماع سے دین نکال دیا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قانون بنانا لوگوں کا حق ہے نا کہ خدا کا اور اس قانون کا نفاذ بھی خود انہی عوام کے ہاتھوں اور ان کے نمائندوں کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ حکم خدا کے مطابق۔

اسی طرح بقیہ دیگر مسائل میں بھی یہی فکر موجود ہے: مثلاً کہتے ہیں کہ ”لازمی نہیں ہے کہ اخلاقی ، مذہبی ہو!“ انہوں نے اس بات کے لئے بھی کوشش کی ہے کہ اخلاق و اخلاقیات کو بھی دین سے الگ کردیں اور یہ کہیں کہ ”اخلاقی مفاہیم کا دینی مفاہیم سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے کچھ اخلاقی مفاہیم کو قبول کیا ہوا ہے اور وہ اس کی اہمیت کے قائل ہیں تو ان کے اس عقیدے کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بے دین ہو لیکن اخلاقی اصولوں کا مکمل پابند اور پرکار بند ہو۔“

پس مغربی فلسفہ سے مراد ایسا فلسفہ نہیں ہے جو ایک خاص جغرافیائی علاقے سے منسوب ہو بلکہ وہ چیز اسلامی فکر کے اصول و اساس کی مخالف ہے ، وہ مادیت کی طرف رجحان اور جھکاﺅ ہے ، خواہ وہ دین یا سیاست سے دین کی جدائی اور قوانین خدا سے انسانی زندگی کی آزادی کے نام سے ہی کیوں نہ سامنے آئے وہ ”مغربی ثقافت‘ ‘ ہی کہلائے گی اور ہم ایسی ثقافت و افکار و نظریات کی مذمت کرتے ہیں ۔

بنا برایں ، اگر ہم مغربی ثقافت کی مخالفت کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہم مشرقی ہیں اور اپنے مشرقی تشخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں اور نہ جغرافیائی لحاظ سے ہماری ان سے دوری کی وجہ سے۔ اسی طرح ہماری ان کی مخالفت اس بناءپر بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی معاشرتی زندگی میں خاص رسوم و آداب کے حامل ہیں کہ جہاں ایک شخص سلام کرتا ہے تو دوسرا سرسے ٹوپی اتار کر سر ہلا کر جواب دیتا ہے ! نیز ہم یہ بھی دعویٰ نہیں کرتے کہ جو چیز بھی مغرب سے وارد کی جاتی ہے وہ کثیف، آلودہ اور نجس ہے! جیسا کہ پوری تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ پورا مغرب گناہوں اور برائیوں میں گھرا رہاہو اور آج بھی اس قانون کو کلیت حاصل نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی فی نفسہ ہماری ان کی مخالفت کا سبب نہیں ہے بلکہ مغربی ثقافت سے ہمارا اختلاف، مغربی ثقافت کے مختلف ابعاد و جہات کی وجہ سے ہے جو برائیوں کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں اور اخلاقی انحطاط و زوال اور انسانیت کے سقوط کا باعث ہیں ۔

ہمارے ملک میں بھی مغربی استعمار کے ثقافتی حملے اور اس کے نفوذ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں کہ جسے مختصر تعبیر میں ”مغربی ثقافت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، سے انقلابی اور بیدار مسلمان جنگ کررہے ہیں ۔ مسلم طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خواہ ماضی ہو یا حال، مغرب میں بھی ایسے انسانوں کا وجود رہا ہے اور آج بھی ہے کہ جو ایسی ثقافت کے سختی سے مخالف ہیں۔


http://nawa-e-islam.com/?p=8863
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!

Last edited by Farrah Zafar; Friday, February 03, 2012 at 10:08 PM. Reason: highlighted headings
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
siddiqui88 (Saturday, February 04, 2012), SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #13  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


نظریاتی حصار کی حفاظت کیجئے!

محمد حسین چودھری
کسی بھی قوم کا مضبوط ترین دفاعی حصار اس کے نظریات ہوتے ہیں۔ نظریات کا حصار اگر مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور اس کی دیواروں کی مسلسل دیکھ بھال کی جاتی رہے تو قومیں اپنے دفاع کو موثر اور پائدار بنا سکتی ہیں۔ مگر نظریات کے معیار کو قائم اور مضبوط رکھنے کیلئے خود اس حصار کی دیکھ بھال کرتے رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کو بھارت سے علیحدہ مملکت دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنایا گیا، کیونکہ مسلمانوں کا طرز زندگی ہندوؤں کے طرز زندگی سے قطعی طور پر مختلف ہے اور جمہوری نظام کے تحت ان دونوں قوموں کا اکھٹے رہنا کسی طور پر ممکن نہ تھا چنانچہ بانیان پاکستان نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کیلئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا، اور اس کے حصول کیلئے دن رات ایک کر*دیا۔

پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر ممکن ہوا جس میں یہ بات واضح تھی کہ مسلمانوں کا رہن سہن ہندوؤں سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں قومیں پر امن طور پر اکھٹے نہیں رہ سکتیں۔ چنانچہ پاکستان کے نام پر علیحدہ مملکت اس لئے بنائی گئی کہ یہاں كر اسلامی اصول لاگو ہونگے، اسلامی طرز زندگی اپنایا جائے گا اور اسلامی ثقافت کو فروغ دیا جائے گا۔ مگر پاکستان بننے کے فوراً بعد سے ہی یورپی ممالک کی ثقافت نے دھیرے دھیرے اس آزاد ملک میں اپنا اثر بڑھانا شروع کر*دیا اور اسلامی نظریے کے حصار کو کمزور کرنا شروع کیا۔ مگر چونکہ ہندوؤں کے ساتھ اکھٹا رہنے کی تلخ یادیں مسلمانان پاکستان کے ذہنوں میں تازہ تھیں چنانچہ بھارت اور ہندوؤں کی مسلم دشمنی کو پاکستان میں ہمیشہ گہرائی سے دیکھا جاتا رہا۔ مگر حالیہ چند برسوں میں بالخصوص ستمبر ٢٠٠١*ء کے بعد سے بین الاقوامی منظرنامے پر ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھ جانے کے بعد سے ہماری حکومت نے اچانک بھارت کے ساتھ بھی دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کر*دیں۔

امن قائم رکھنا اور جنگ کی از خود خواہش نہ کرنا تو ہمارے دین کا حصہ ہے مگر دین اور دنیا دونوں لحاظ سے امن قائم ہونے کیلئے اپنے نظریات کا سودا کر*دینا کسی بھی صورت قابل تحسین نہیں۔ کسی مغربی مفکر کا قول ہے کہ «جنگ اور دشمنی کو ختم کر*دینے کا تیز*ترین اور یقینی راستہ شکست اپنا لینے کا ہے»۔ تو کیا ہماری موجودہ قیادت بھی بھارت سے ہر قیمت پر دشمنی ختم کر*دینا چاہتی ہے، خواہ اس کیلئے شکست کی ذلت اٹھانا پڑے؟ اگر ایسا ہے تو بھی ہماری حکومت اور بھارت دونوں ہی کو مان لینا چاہئے کے بعض اوقات حکومتوں اور قوموں کے طرز فکر میں بہت تضاد پایا جاتا ہے اور پاکستان کی بھارت سے ہر قیمت پر دوستی کی حکومتی فکر پاکستانی قوم کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں ہے۔ بھارت اپنی چالیں بڑے شاطرانہ انداز میں چل رہا ہے مگر پاکستانی قوم کو اس کی عیاریوں سے اس قدر خطرات لاحق نہیں ہیں جتنا کہ خود اس کے اپنے حکمرانوں کی سادہ لوحی اس کیلئے خطرناک ہے۔

اسلام کے سنہرے اصولوں کو لاگو کرنے کیلئے حاصل کئے جانے والے ملک میں ہر طرح کی غیر مسلم تہذیب و*ثقافت کو مکمل تحفظ اور سرپرستی فراہم کی جا*رہی ہے، جبکہ اسلامی ثقافت بالخصوص جذبۂ جہاد کی بیخ کنی کیلئے دن رات حکومتی فکر و*عمل بھی جاری ہے۔ ایک تازہ خبر کے مطابق لاہور میں مغلیہ شہنشاہ شاہجہاں کی نشانی شاہی حمام میں «شاہجہان ریسٹورنٹ» قائم کر*دیا گیا ہے۔ جہاں پر کنیزیں کھانا پیش کریں گی۔ بھوک سے پریشان لوگوں کے ملک میں شاہجہان ریسٹورنٹ میں


«کانٹینینٹل» کھانے «مغلیہ سٹائل» میں پیش کئے جائیں گے۔
تخت طاؤس پر رائل باربی کیو ہو گا۔
ہر شام «شام غرل» ہوگی۔
ہفتے میں ایک دفعہ سرمئی شام منعقد ہوا کرے گی جبکہ مہینے میں ایک بار «گرینڈ میوزکل شو» کا اہتمام ہوا کرے گا۔

اس خبر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ «ریسٹورینٹ میں کنیزیں مغلیہ لباس زیب تن کریں گی اور مغلیہ دور کی یادیں تازہ کر*دی جائیں گی»۔ مذکورہ خبر میں مغلیہ دور کی یادیں تازہ کرنے کی بات بھی کی گئی ہے جس سے ہمارے ذہنوں میں ١٨٥٧*ء میں مغلیہ لباس زیب تن کئے ہوئے ریشمی کپڑوں سے ڈھکے تھال اٹھانے والی کنیزوں کی یاد بھی تازہ ہو*جاتی ہے جو اس وقت کے شہنشاہ کے بیٹوں کے سر انگریز سرکار کے حکم پر شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو پیش کر*رہی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کے زوال میں دیگر کمزوریوں کے ساتھ طاؤس و*رباب کا بھی بہت بڑا کردار تھا اور اب ہماری حکومت بھی مغرب اور بھارت کے زیر اثر طاؤس و*رباب کی اس قدر سرپرستی کر*رہی ہے کہ قوم کے گرد قائم نظریانی حصار کو بالکل معدوم کیا جا*رہا ہے۔ اس قسم کی حکومتی سرپرستیوں کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ قوم کو بھارتی ثقافت سے بچانے کیلئے اپنی ثقافت کو بہت «خوشنما» بنا دیا جائے۔ مگر کیا اپنے کلچر کو اس قدر بدل ڈالنا اور دشمن ہی کے طرز پر چل نکلنا از خود اعتراف شکست نہیں ہوگا؟


ǘÓÊÇä ãیŸ ÇÓáÇãی ËÞÇÝÊ ˜ÿ ÎáÇÝ ãÛÑÈی ÇæÑ ÀäÏæ ÊÀÐیÈ ˜ی یáÛÇÑ ۔ Ïæ Þæãی äÙÑیÀ ÎØÑÿ ãیŸ
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Friday, February 03, 2012), SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #14  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


قرآن مجید کے متعلق جارج سیل کا نظریہ


مسیحی نقطہٴ نظر سے قرآ ن مجید کا ترجمہ کرنے والے گزشتہ مترجمین ،اسلام کے متعلق برے نظریات رکھتے تھے یا پھرتعصبات کا شکار تھے۔اور ان مترجمین� نے قرآن و اسلام کے موضوع کے متعلق جو بے بنیاد باتیں کی ھیں اس کی وجہ یہ ھے کہ کسی نے بھی اس طرح کے بیھودہ و فرسودہ اظھارات و خیالات کا خطرہ محسوس نھیں کیا اور نہ ھی ان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا۔ لھذا انھوں نے موقع غنیمت سمجھتے ھوئے اپنی ھوا و ھوس کے مطابق قرآن و اسلام کے ساتھ یہ سلوک کر ڈالا۔



قرآن مجید کے متعلق ر نیالڈ نیکلسن کا نظریہ :



اسلام کی ترقی کا سب سے پھلا موثر ترین عامل قرآن مجید ھے جس میں تمام احکام الٰھی الھام یا وحی کے ذریعہ بہ شکل پیغام موجود ھیں جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ لائے گئے ھیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پیغامات کو حاصل کرنے کے بعد اپنے اصحاب و پیرو کاروں کے درمیان پڑھا اور ان میں سے بعض افراد کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ ان پیغامات کو خرمہ کے پتوں یا چمڑے اور ھڈیوں یا مجبوراً ھی اس محکم و مضبوط چیز جو لوگوں کی دسترس میں ھو ، پر نھایت اھتمام کے ساتھ لکھیں ، ان پیغامات الٰھی و ربانی کا سلسلہ ۲۳/ سال یعنی زمانہ ٴ بعثت پیغمبر تک جاری رھا ۔



قرآن مجید کے متعلق تھامس کا رلائل کا نظریہ :


قرآن مجید مسلمانوں کی ایک مقدس و دینی کتاب ھے ، پیروان قرآن کے نزدیک جتنا زیادہ قرآن کا احترام ھے اتنا عیسائیوں کے نزدیک انجیل کا احترام قطعاًنھیں ھے۔ قرآن کا حُسن و جمال نکھر کر سامنے اس لئے بھی زیادہ آتا ھے کہ وہ عربی جیسی فصیح زبان میں ھے ۔ یوروپین کے پاس قرآن مجید ھے لیکن اس میں وہ حسن و جمال نھیں ھے اس لئے کہ اس کا ترجمہ عربی زبان میں نھیں ھے ، عربی زبان میں ترجمہ نہ ھونے کی وجہ سے اسکی رونق ماند پڑ گئی ھے ۔ ( تاریخ ترجمہ قرآن در جھان :ص/۴۰)

�․․․․․قرآن مجید کے حکیمانہ کلمات جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنے گئے ھیں وہ اس سے کھیں زیادہ کم ھیں جو خود اس عظیم شخصیت کے وجود مقدس میں موجود تھے ۔



قرآن مجید کے متعلق ف۔ف اربوٹنٹ کا نظریہ :


تعجب اس بات پر ھے کہ قرآن مجید لغت گرامر و جملہ بندی کے اعتبار سے عربی قواعد و دستورات� کے عین مطابق ھے اس کے باوجود بعض حضرات نے قرآن مجید کی ظرافت و بلاغت کے متعلق کچھ لکھنے کے لئے اپنی تمام تر قوت و طاقت صرف کردی لیکن اپنے مقصد میں آج تک کامیاب نہ ھو سکے ۔

ادبی نقطھٴ نظر سے ، عربی نثر و شعر کے درمیان قرآن مجید فصیح ترین� کتاب ھے ۔



قرآن مجید کے متعلق ج۔ م روڈویل کا نظریہ :


اس بات کا یقین ھونا چاھئے کہ قرآن مجید عالی ارشادات و عمیق نظریات کا حامل ھونے کی وجہ سے لائق احترام و اھتمام کتاب ھے ۔ یہ کتاب وھی�� روح بخش کتاب ھے کہ جس نے ایک فقیر و نادان قوم کو منقلب کر دیا تھا۔� اپنے بال و پر کومغرب و مشرق میں اس طرح پھیلانے کہ تھوڑے ھی عرصہ میں ایک عظیم امپرا طوری حکومت وجود میں آ گئی ۔ قرآن مجید کا ایک عظیم مقام یہ ھے کہ خدائے یگانہ و خالق جھان ھستی سے موسوم ھے اوراس نے اس کو ایک بت پرست قوم کے درمیان بھیجا اور اعلان کیا ۔ اھل مغرب کو یہ نھیں بھولنا چاھئے کہ وہ اسی کتاب کے مقروض ھیں جس نے آفتاب علم کوقرون وسطیٰ کے تاریک دور میں طلوع کیا ۔



قرآن مجید کے متعلق بار سنٹ ھیلر کا نظریہ :
قرآن مجید عربی زبان کا بے مثال شاھکار ھے۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاھئے کہ قرآن کا صوری جمال اس کی عظمت معنوی سے کم نھیں ھے ، قوت الفاظ ، کلمات کا انسجام اور افکار کی تازگی میں تخلیق نو اور ظھور میں اس قدرجلوہ گر ھے کہ قبل اس کے کہ عقلیں معانی قرآن کی مسخر ھوں دل اس کے گرویدہ و تسلیم ھو جاتے ھیں۔ یہ واضح و روشن طریقہ فقط محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مختص ھے کہ جنھوں نے سامعین کو اپنے معجزانہ کلام کے ذریعہ اپنی طرف جذب کیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و دیگر انبیاء سے اس صفت میں ممتاز ھیں اور اگر بات کھی جائے تو غلط نھیں ھو گی کہ کسی بھی زمانے میں ایسا شخص پیدا نھیں ھوا جو اپنی گفتگو و کلام میں ان خصوصیات کااس قدر حامل ھو ۔

قرآن مجید اپنی ایک خاص روش کے ساتھ ساتھ مختلف مباحث و متعدد فوائد کا حامل ھے۔اس میں مذھبی قصیدے بھی ھیں اور تعریف و حمد الٰھی بھی ۔� اصول و قواعد سے متضمن بھی ھے اور قوانین مدنی و جزائی کا حامل بھی ساتھ ھی ، بشیر و نذیر بھی ھے ۔


http://www.al-hadj.com/ur/default.ph...01/005/01.html
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #15  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


اسلامی جمہوریت



ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلام پسندی عوام پسندی سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوام پسندی اسلام کی جڑوں میں پیوست ہے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں عوام کو نظر انداز کیا جائے۔ اس انتخاب میں عوام کے حق کی بنیاد و اساس خود اسلام ہے۔ لہذا ہماری جمہوریت جسے ہم" دینی جمہوریت" کا نام دے سکتے ہیں ایک مستقل فلسفہ اور اساس رکھتی ہے۔
دینی جمہوریت کی بنیاد مغربی جمہوریت کی بنیاد سے مختلف ہے۔ مذہبی جمہوریت، جو ہمارا انتخاب ہے، اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ انسانی فرائض و حقوق پر استوار ہے۔ یہ کوئی آپس میں طے کر لیا جانے والا معاہدہ نہیں ہے۔ حقیقی جمہوریت وہی دینی جمہوریت ہے جو دینی فرائض اور ایمان کے تناظر میں پیش کی گئی ہے۔
ان حالات میں آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظریہ اور اسلامی جمہوری نظام یا دینی جمہوریت سے دنیا کو روشناس کرائیں تو یوں کہئے کہ جمہوری یعنی عوامی حکومت اور اسلامی یعنی دینی اصولوں اور تعلیمات پر استوار حکومت۔ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم نے دینی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا ہے یہ کوئی بالکل انوکھا نظریہ ہے۔ جی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ یعنی دینی جمہوریت۔ دینی جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ الہی رہنمائی اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق کوئی نظام پروان چڑھے۔ دنیا کے نظاموں کی مشکل یہ ہے کہ وہ یا تو الہی رہنمائی اور تعلیمات سے عاری ہیں جیسے مغرب کی نام نہاد جہموری حکومتیں، جوعلی الظاہر عوام کی منتخب کردہ ہیں لیکن وہ الہی رہنمائی سے بے بہرہ ہیں، یا اگر الہی رہنمائی کی حامل ہیں یا حامل ہونے کی دعویدار ہیں تو عوامی حمایت اور انتخاب سے عاری ہیں۔ بعض ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہیں۔ جیسا کہ بہت سے ملکوں میں نظر آتا ہے۔ یعنی نہ تو عوام ملک کے امور میں دخیل ہیں اور نہ ہی وہاں الہی تعلیمات کی پابندی کی جاتی ہے۔
اسلامی ثقافت میں ان افراد کو بہترین انسان قرار دیا گیا ہے جو عوام کے لئے زیادہ مفید و کارآدم ہوں۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی پرخلوص اور بے لوث خدمت پر استوار ہے۔ یہ ان جمہوری نظاموں کے بالکل بر خلاف ہے جو عوام فریبانہ اور ریاکارانہ ہتھکنڈوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام میں فریضے کی ادائگی کی حیثیت سے پوری پاکدامنی کے ساتھ خدمت کی جاتی ہے۔ اسلامی نظام میں جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی دینی اصولوں سے ہم آہنگ حکومت یعنی اس نظام میں سب کچھ اسلامی معیاروں کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ چند افراد کے درمیان طے پا جانے والا کوئی آپسی معادہ نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جہاں بھی ضرورت ہو وہاں عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہاں اسلامی عہد و پیمان ضروری ہوتا ہے۔ یہ مغربی ملکوں کے جمہوری نظام کی مانند نہیں ہے جو آپس میں طے کر لئے جانے چند اصولوں پر استوار ہوتا ہے اور جسے جب جی چاہے آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک مذہبی فریضہ ہے۔ حکام اس خصوصیت کی حفاظت کے لئے دینی طور پر عہد کرتے ہیں اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی عظیم اصول ہے جو ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیان کردہ اصولوں میں سے ہے۔
مغربی جمہوریت کا مطلب ہے معاشرے پر حکومت کرنے والے دولتمندوں اور سرمایہ داروں کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل۔ یہ نظام اسی دائرے میں محدود ہے۔ اس میں عوام کے انتخاب کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔ اگر عوام سرمایہ داروں کے مفادات کے بر خلاف کچھ چاہیں، اگر وہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف کوئی مطالبہ کریں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسے در خور اعتنا سمجھا جائے گا۔ ایک مضبوط و مستحکم فصیل ان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے گرد موجود ہے جسے کسی بھی صورت میں توڑا نہیں جاتا۔ ماضی کے سوشیلسٹ ملکوں میں جو خود کو جمہوری ملک کہتے تھے یہ فصیل پارٹی کے ارد گرد ہوتی تھی۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طور طریقے اور برتاؤ کی اصلاح کریں اور ملک کے حکام اگر اپنے لئے حقیقی معیار و میزان کے خواہاں ہیں تو دینی جمہوریت اکسیر ثابت ہو سکتی ہے۔ دینی جمہوریت کا ایک رخ یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے فیصلے اور انتخاب کے تحت تشکیل پایا ہے یعنی خود عوام نے اس نظام کا انتخاب کیا ہے اور بنیادی ذمہ داریوں کے حامل حکمراں بالواسطہ یا بلا واسطہ خود عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ دینی جمہوریت کا دوسرا رخ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اب جب مجھے اور آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے تو ہم ان کے تئیں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حقیقی معنی میں محسوس کریں۔
جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان انتخابی مہم کے تحت شور شرابا مچائے اور اس طرح لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کی کوشش کرے۔ جب لوگوں سے ووٹ مل جائيں تو پھر انہیں رخصت کر دے اور اس کے بعد ان کی طرف مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ جی نہیں جمہوریت کا پہلا مرحلہ تشکیل حکومت کی شکل میں جب پورا ہو جائے تو خدمت اور جوابدہی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
جمہوریت کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ آپ ایسے کام کی فکر میں رہیں جو اعتدال پسند افراد کی مرضی کے مطابق وسیع سطح پر عدل و مساوات کی برقراری میں مددگار ثابت ہوں۔ عام لوگوں سے رابطہ اور ان کے مفادات کا پاس و لحاظ جتنی وسیع سطح پر ہوگا وہ اتنا ہی عوام کی خوشنودی کا باعث بنے گا۔
وہ اسلامی نظام جو دین و پرچم توحید کے سائے میں چل رہا ہو بالکل واضح اور صریحی الفاظ میں اور حقیقی شکل و پیرائے میں جمہوریت کی مثال پیش کر سکتا ہے۔ یہ نظام نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کے استکباری پروپگنڈوں کے بالکل بر خلاف ہے۔ وہ (مغرب والے) دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت ان کی جاگیر ہے۔ یہ ان کے لئے نا قابل برداشت ہے کہ ایک دینی و اسلامی نظام اپنے ایمانی اقدار و معیارات کی پابندی کرتے ہوئے جمہوریت کا آئینہ دار بن جائے۔ ہم نے نہ تو مشرقی حکومتوں کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے اور نہ مغربی حکومتوں کو۔ ہم نے اسلام کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے پوری واقفیت کی بنا پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔



http://urdu.khamenei.ir/index.php?op...437&Itemid=171
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #16  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


ثقافتی دہشت گردی

ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو عالمی سیاست میں اہم ترین مقام پر فائز کر دیا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کے میڈیا کو استعمال کرتی ہیں۔ اب فوجی طاقت کے زریعے کسی کو غلام دینے کا رواج نہیں رہا بلکہ میڈیا کے زور اور مخصوص نظریات و روایات کی ترویج کے ذریعے ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ مغربی طاقتوں کو اس میدان میں کافی کامیابی ملتی رہی ہے اور سوویت یونین کے بعد اسلام کے ساتھ تہذیبوں کی جنگ کے لیے میڈیا اور ثقافتی حربوں کو ہی اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ، اخبارات اور دیگر ذرایع ابلاغ کے ذریعے ”نیوکالونینل ازم “ کا ایک نیا تصور فروغ پا رہا ہے۔ جس کی مثال گلوبل ویلج بنتی دنیا میں ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ مغربی طاقتیں چین ، جاپان اور عرب ممالک جیسے مضبوط معاشروں پر میڈیا کی طاقت سے ہی بھرپور انداز میں اثرانداز ہوئی ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں میڈیا اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے ۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستانی میڈیا میں بعض غیر ملکی طاقتوں کی سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آ رہی ہیں ۔ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں کہ بعض غیر ملکی عناصر لالچ دیکر ملکی میڈیا کو خریدنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اینکرز کو سفارت خانوں میں مدعو کرکے عیش و عشرت کا بندوبست کرنے کی تصاویر اور ویڈیوز تو منظر عام پر بھی آ چکی ہیں ۔ بعض چینلز اور اخبارات صرف وہی پالیسی اختیار کرتے ہیں کہ جس کی ہدایت ان کے سرمایہ کاروں کی جانب سے دی جاتی ہے ۔ یہ سب واقعی افسوسناک اور ملکی سلامتی کے خلاف ہے ۔ غیر ملکی طاقتوں کا ملکی میڈیا میں اثر ورسوخ دن بدن بڑھ رہا ہے۔آج ہمیں ایک بھرپور قسم کی ثقافتی اور پروپیگنڈا یلغار کا سامنا ہے کہ جس نے ہمارے ملک کے ایک بڑے طبقے کے قلوب و اذہان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج جہاں ایک طرف اسلحہ و بارود کے ذریعے ملک کی بنیادوںکو ہلا یا جا رہا ہے ، قومی سلامتی اور خودمختاری ایک مذاق بن کر رہ گئی ہیں وہیں ہمیں اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ” ثقافتی دہشت گردی “ کا بھی سامنا ہے ۔ غیر ملکی طاقتیں ہمارے معاشرے میں موجود دین بیزار اور سیکولر قوتوں کی مدد سے ارض پاک کی نظریاتی سرحدوں کو پامال کرنے میں مصروف ہیں ۔ معاشرے کو بدلنے کی کوشش میں دینی اور مذہبی روایات کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں ۔ سابق صدر مشرف کے دور میں روشن خیالی کا لگایا گیا پودہ اب تن آور درخت بنتا جا رہا ہے ۔ کوئی امن کی آشا کے نام پر بھارتی ثقافت کا پرچار کرتا ہے ، بھارتی فلمیں سینماوؤں اور کیبل کی زینت بن چکی ہیں اور اسی کے اثرات ہندوانہ رسم و رواج کی ترویج اور ملکی و اسلامی تہذیب و ثقافت سے دوری کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں ۔حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے چند مزید واقعات نے ہم پر مسلط کردہ تہذیبی جنگ اور اس ثقافتی دہشت گردی کو مزید واضح کر دیا ہے ۔ اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع منعقد کیا گیا۔ امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس جون کو امریکی سفیر نے ہم جنس پرست گروپوں کو سفارتخانے مدعو کیا تھا اور ان کو ان کے حقوق کی یقین دہانی کرائی تھی۔سفارتخانے کے بیان کے مطابق اس اجتماع میں تقریباً 75 افراد نے شرکت کی جن میں سفارتخانے کا عملہ، امریکی فوجی، غیر ملکی سفارتکار، پاکستان میں ایڈووکیسی تنظیموں اور ہم جنس پرستوں کے پاکستان چیپٹر کے رہنما شامل تھے۔ پاکستان کے مذہبی حلقوں نے اس حرکت کو ”ڈرون حملے“ کے مترادف قرار دیا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امریکی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی آڑ میں ہماری روایات ، ثقافت اور اسلامی شناخت تک کو مٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ یہ کوشش کی جا رہی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں بہود ہ اور فحش مغربی روایات کے خلاف مدافعلت کو کم کر دیا جائے۔ اور اس مقصد کے لئے این جی اوز کے ذریعے بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔
اس سے پہلے کراچی میں اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے کے تعاون سے جسم فروش خواتین کی ایک ورکشاپ منعقد کی گئی ۔ ” خواتین کے حقوق“ کی آڑ میں منعقد اس قسم کی تقریبات کا واحد مقصد معاشرے میں فحاشی و عریانی کا فروغ ہوتا ہے ۔ جسم فروش خواتین کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ انہیں متحد ہو کر اپنے حقوق اور اس پیشے کو قانونی حیثیت دلانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے ۔ اس شعبے میں بھاری غیر ملکی سرمایہ کاری کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں ؟ سیدھی بات ہے کہ بھاری رقوم خرچ کرنیوالوں کی کوشش ہے کہ پاکستان میں یہ شعبہ مضبوط اور بہتر ہو۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کروڑوں روپے کے یہ فنڈز ان خواتین کو باعزت روزگار دینے کے لئے نہیں خرچ کئے جا سکتے بلکہ اس قدر بھاری رقوم انہیں یہ سمجھانے کے لئے خرچ کی جاتی ہیں کہ وہ اپنے پیشے سے ضرور جڑی رہیں اور انہیں صرف ” محفوظ“ طریقے سمجھائے جاتے ہیں ۔ اس کانفرنس کے ذریعے جسم فروش خواتین کو باقاعدہ بھرتی بھی کیا گیا تاکہ وہ یہ ” پیغام“ دوسروں تک پہنچا سکیں ۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ یعنی یو این ایف پی اے کے پراجیکٹ افسر ڈاکٹر صفدر کمال پاشا نے اس

موقعے پر بتایا کہ ایک سروے کے مطابق کراچی میں ایک لاکھ سے زیادہ اور لاہور میں پچھتر ہزار خواتین سیکس ورکرز کام کررہی ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شعبے کو کس حد تک مضبوط بنا دیا گیا ہے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ گزشتہ ماہ معروف سیاحتی مقام مری کے قریب نتھیا گلی میں ایک انوکھی ورکشاپ کا اہتمام ہوا۔ یہ ورکشاپ ہم جنس پرست، خواجہ سراءاور جسم فروش خواتین کو ” تربیت یافتہ “ بنانے کے لئے منعقد کی گئی ۔ ’بائٹس فار آل‘ نامی ایک این جی او کے زیرِ انتظام تربیتی ورکشاپ کا مقصد ان کو یہ سمجھانا تھا کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے استعمال کے ذریعے وہ کس طرح اپنی کہانیاں دنیا تک پہنچا سکتی ہیں ۔ اس ورکشاپ میں عالمی تنظیم ’ایسوسی ایشن فار پروگریسو کمیونیکشن‘ سے تعلق رکھنے والی ملائیشین ٹرینر اینجلا کوگا نے شرکاءکو ویڈیوز کے ذریعے اپنی کہانیاں اور ” پیغام“ دوسروں تک پہنچانے کی تربیت دی ۔اس موقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ہیجڑوں، جسم فروشوں اور ہم جنس پرستوں کے لیے ایک بڑا اہم ذریعہ ہے۔ اس قسم کی ورکشاپس کا مقصد ان طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو خوداعتماد بنانا اور یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ” شب و روز“ سے پورے معاشرے کو آگاہ کرتے ہوئے ہرگز شرم محسوس نہ کریں۔ آپ تصور کریں کہ جب ایسی ویڈیوز انٹرنیٹ ، موبائل کلپس اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہوں گی تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ ان سرگرمیوں کے لئے بھاری فنڈز فراہم کرنیوالوںکا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسا مواد عام ہو کہ جو اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال سکے ۔
ملک میں مہنگائی کا شکار خواتین کے لئے تو کوئی بھی مغربی ملک کچھ دینے کو تیار نہیں جبکہ خواجہ سراوؤں ، ہم جنس پرستوں اور جسم فروش خواتین کی فلاح و بہبود کے نام پر کروڑوں خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اور وہ بھی ” خواتین کے حقوق“ کے نام پر ۔ گویا یہ تصور دیا جارہا ہے کہ حقوق صرف انہیں خواتین کے لئے ہو سکتے ہیں کہ جو جسم فروش ہوں یا پھر ہم جنس پرست ۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں دئیے جانیوالے ” ڈالرز“ کے بدلے ہمارے عقائد، نظام تعلیم ، معاشرتی روایات، دینی اقدار سمیت سب کچھ بدلنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور، کراچی ، اسلام آباد کے سفارت خانے اس حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم دیکھائی دیتے ہیں ۔ ملک کی طاقتور شخصیات، اینکر پرسنز کے لئے عیش و عشرت کا انتظام کیا جاتا ہے اور بعد ازاں انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کراچی میں امریکی سفارت خانے نے کچھ عرصہ قبل خصوصی طور پر پاکستانی بلاگرز کا اجتماع بھی منعقد کیا جس کی بھرپور تشہیر بھی کی گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا آج کے دور میں روایتی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے بھی کہیں زیادہ طاقتور بنتا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی اس بارے میں بھی کافی مستعد نظر آتے ہیں ۔ مصر، تیونس ، شام سمیت دیگر ممالک میں برپا ہونیوالی تحریکوں میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا نے ہی ادا کیا تھا۔ اس اہم شعبے کو ایک خاص سمت میں چلانے اور اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ کراچی میں ہونیوالی اس تقریب کے لئے بھاری رقوم فراہم بغیر کسی مقصد کے تو فراہم نہیں کی گئی ہوں گی۔ ملکی سلامتی کے اداروں کے بارے میں انٹرنیٹ کے ذریعے بھرپور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں انٹر نیٹ پر حکومتی کنڑول نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ نوجوان نسل کی تباہی کا باعث بن رہا ہے ۔ ایک امریکی ادارے کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس دیکھی جاتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ایس ایم ایس پاکستانی بھیجتے ہیں یعنی چین ، بھارت اور انڈونیشیا سے بھی زیادہ ۔
آج وقت کی ضرورت ہے حکومت، دینی و سماجی حلقے ، سیاسی جماعتیں ان مسائل کی طرف بھی توجہ دیں ۔ اگر ان مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو یہ خاموش زہر جہاں ایک طرف ثقافتی و تہذیبی روایات کو پامال کرکے رکھ دے گا وہیں قومی سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ یہ حقیت ہے کہ اخلاق سے عاری اور فحش عادات کا شکار قوم ملک کا دفاع نہیں کر سکتی ۔ اگر ہمیں اپنے ملک ، اپنی روایات اور تہذیب کو بچانا ہے تو اسلحہ و بارود کے ذریعے برپا کی جانیوالی شورش کے ساتھ ساتھ اس” ثقافتی دہشت گردی “ کے خاتمے لئے بھی کوشش کرنی چاہیے


http://www.kitabosunnat.com/forum/%D...1682/#post9631
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #17  
Old Friday, February 03, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default


تہذیب و ثقافت

ثقافتی یلغار یہ ہے کہ کوئی گروہ یا سسٹم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی قوم کو اسیر بنا لے۔ اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے۔ یہ سسٹم اس قوم میں کچھ نئی چیزیں اور افکار متعارف کراتا ہے۔ پھر انہی افکار و نظریات اور طرز عمل کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی کو ثقافتی یلغار کہتے ہیں۔ ثقافتی تعاون اور لین دین کا مقصد موجودہ ثقافت کو مستحکم اور کامل بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ ثقافتی یلغار میں ایک ثقافت کو نشانہ بناکر مٹا دیا جاتا ہے۔ ثقافتی لین دین میں جو قوم کسی دوسری قوم سے کچھ حاصل کرتی اور لیتی ہے، وہ دوسری قوم کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتی ہے، اس کی خوبیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور پھر انہی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے مثال کے طور پر علم و دانش وغیرہ۔
ثقافتی لین دین میں انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہوتا ہے جبکہ ثقافتی یلغار میں انتخاب دشمن کرتا ہے۔ ثقافتی لین دین اس لئے ہوتا ہے کہ خود کو کامل بنایا جائے یعنی اپنی قومی ثقافت کو کامل بنایا جائے جبکہ ثقافتی یلغار اس لئے ہوتی ہے کہ ایک ملک کی ثقافت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ثقافتی لین دین اور تعاون اچھی چیز ہے لیکن ثقافتی یلغار بہت مذموم شیء ہے۔ ثقافتی تعاون، دو مضبوط ثقافتوں میں انجام پا سکتا ہے لیکن ثقافتی یلغار ایک طاقتور قوم کمزور قوم پر کرتی ہے۔
مغربی ثقافت اچھائیوں اور برائيوں کا مجموعہ ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغربی ثقافت میں صرف برائياں ہی برائياں ہیں۔ جی نہیں، مغربی ثقافت بھی مشرقی ثقافتوں کی مانند خوبیوں اور عیوب کا مجموعہ ہے۔ ایک دانشمند اور علم دوست قوم اور صاحبان عقل و خرد دوسروں کی خوبیاں اپنی ثقافت میں شامل کر لیتے ہیں لیکن ان کی برائیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
اسلامی ثقافت ایک معیاری ثقافت ہے، جو ایک معاشرے کے لئے اور انسانوں کے کسی بھی گروہ اور جماعت کے لئے اعلی ترین اقدار و معیارات کی حامل ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کو سربلند و سرفراز اور عزیز و با وقار بنا کر ترقی و کامرانی کی راہ پر لگا سکتی ہے۔ امت مسلمہ مختلف قوموں، نسلوں اور مکاتب فکر سے تشکیل پائی ہے۔ قدیمی ترین تہذیبیں اور وسیع ثقافتیں انہی علاقوں میں پھلی پھولی اور فروغ پائی ہیں جہاں آج مسلمان آباد ہیں۔ یہ تنوع، یہ رنگا رنگ انداز، کرہ زمین کے حساس علاقوں کی مالکیت امت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں۔ تاریخ و ثقافت کی مشترکہ میراث اس امت کی طاقت میں اور بھی اضافہ کر سکتی ہے۔

__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
asifakhan (Sunday, July 28, 2013), Raat ka musafir (Saturday, November 16, 2013), SYEDA SABAHAT (Saturday, February 11, 2012)
  #18  
Old Friday, September 28, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default

امت مسلمہ کی زبوں حالی کے بنیادی اسباب



اسلام ٹائمز: مسلم ممالک کی باہمی عصبیت کے نتائج پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل کی سینہ زوری اور خلیج فارس تک امریکی تگ و تاز کے جرات مندانہ اقدام کی ذمہ دار اسی فکری ہم آہنگی کی عدم موجودگی ہے۔

تحریر: جاوید عباس رضوی


دنیا میں آج مسلمانوں کی پریشانی اور زبوں حالی کی بنیادی وجہ ان کی صفوں کے درمیان انتشار ہے، بڑی طاقتیں جس طرح مسلمانوں کو عالمی سطح پر استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کرتی ہیں، شائد ہی دنیا میں کسی دوسری ملت کا اس طرح استحصال ہوتا ہو، ایک طرف عربی و عجمی عصبیت کو ہوا دی جا رہی ہے تو دوسری طرف فروعی اختلافات کو دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ گمراہ کن پروپیگنڈا کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اغیار کی ان سینہ زوریوں کا سبب مسلمانوں کی اپنی کمزوری ہے، مسلمان اس پر خون جگر کے آنسو روتے ہیں کہ لبنان پر عیسائی اور صہیونی حملہ کرتے ہیں، افغانستان میں امریکہ براہ راست ان کا خون بہا رہا ہے، امریکہ کی مسلم اقلیت مظالم کا شکار ہو رہی ہے، فلسطینی اور کشمیری دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، لیکن انکی اپنے حال پر نظر نہیں، بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے مالی و جانی نقصانات پر وہ آنسو بہاتے ہیں لیکن جب آپس میں مسلمان ہی دست و گریبان ہوتے ہیں تو اس پر کف افسوس ملنے کے بجائے وہ عصبیت کے معرکے سر کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔

عرب ممالک کی آپس میں فکری، نظریاتی، تمہیدی و مسلکی، جغرافیائی، لسانی اور تمدنی بنیادیں جس طرح مشترک ہیں، مشکل سے یورپ کے ممالک کے مابین محرکاتِ اتحاد و اشتراک میسر ہوں، لیکن ان مسلم ممالک کی آپسی عصبیت کے نتائج پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل کی سینہ زوری اور خلیج فارس تک امریکی تگ و تاز کے جرات مندانہ اقدام کی ذمہ دار یہی آپسی فکری ہم آہنگی کی عدم موجودگی ہے۔

مسلمان کو آج کل ہر طرف سے جو مار پڑ رہی ہے، اس کی وجہ یہی آپسی دشمنی ہے، اگر منابع اصلی کی رو سے بس چلتا تو شائد ملکی اور قومی مخاصمت رکھنے والے یا جزوی اختلاف کو بنیادی عقائد پر ترجیح دینے والے عناصر ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوی بھی صادر کرنے سے گریز نہ کرتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہر مسلمان ملک مجموعی طور پر، ہر اسلامی فرقہ مجموعی حیثیت سے، ہر مسلمان تنظیم مجموعی سطح پر اور ہر مسلم تحریک اجمالی زاویوں سے جب ایک دوسرے بلاک سے متفق و مطمئن ہے، پھر یہ کون سی دیوار ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں، زمانے کے تقاضوں اور جدید مسائل کی روشنی میں ان مختلف مکاتب فکر و نظر کو وحدت فکر و عمل کے لئے ایک سطح پر لانے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔؟

یہ ہے صرف بے عملی اور عصبیت کی دیوار۔ مثلا مجھے یہ منظور ہے کہ میں اسلامی مدارک کے اندر اندر اپنے مسلمہ عقیدہ و فقہ پر عمل نہ کروں، لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ دوسرا مسلم بھائی، اسلامی مدارک کے اندر اندر اپنے مسلمہ عقیدہ فقہ پر عمل کرے یا ہماری اس سطحی سوچ کو عیاشی و مفاد پرستی کے محافظ ہوا دیتے رہیں، نیز اسلام اور مسلمان کے نام پر فسق و فجور، رشوت و خیانت، زر پرستی، گروہ بندی کے بت بنائے جائیں، تو اس سے امت کے مسائل کہاں حل ہونگے۔

مسلم اکثریت والے ممالک میں مسلمان کا رول کیا مثالی ہونا چاہئے، اور مسلم اقلیت والے ملک میں اسے اسلام نوازی کے لئے کون سا کردار اختیار کرنا چاہئے، یہ ہم سب کے مشترکہ مسائل ہیں، حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں فکری ارتقا کی سیر کرکے اسوہ رسول (ص) میں حسن تدبر کا مشاہدہ کر کے اور آئمہ اطہار (ع)، صحابہ کرام (ر) کی متفقہ سیرت سے استفادہ کرکے آج اور ہر دور کے مسلمان، رنگ و نسل، زبان و قومیت کی دیواروں کو گرا کر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں، ورنہ عام طور پر مشرکانہ جاہلیت اور جماعتی عصبیت کی جھوٹی جلوہ نمائیوں سے انتشار کا مرض بڑھتا ہی جائے گا، اور یہ ایسی ہی مثال ہوگی، جیسے کوئی غیرت سے روزہ نہ رکھے بلکہ شرارت سے فاقہ کرے۔


http://www.islamtimes.org/vdcdzo0fxyt05z6.432y.html
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to Farrah Zafar For This Useful Post:
Asadibrahim (Tuesday, June 25, 2013), asifakhan (Sunday, July 28, 2013), Engr Shahid (Saturday, September 29, 2012), Raat ka musafir (Saturday, November 16, 2013)
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Guidance needed for Islamiat mani1 Islamiat 31 Saturday, November 15, 2014 06:30 PM
Better to go for islamiat in english hilarious Islamiat 14 Thursday, March 24, 2011 08:36 PM
How Many candidates Have Failed in Islamiat only? Zeeshan Inayat CSS 2010 Exam 3 Friday, October 22, 2010 10:04 AM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.