View Single Post
  #1  
Old Monday, April 16, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Mirza Ghalib: Fikr o Fun

مرزا اسد اللہ خان غالب

پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد



مرزا اسد اللہ خان غالب( ۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ء)اُردو شاعری کے مجتہد اور مجدد ہیں ، انہوں نے اپنے فکری نظام اور فنی مہارت سے اُردو شاعری بالخصوص اُردو غزل کو وہ وقار اور اعتبار بخشا جس نے ’’ریختہ ‘‘کو ’’رشکِ فارسی ‘‘ بنا دیا:
جو یہ کہے کہ ’ ریختہ‘ کیوں کر ہے رشکِ فارسی؟‘
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ ’یوں

مرزا غالب کا منتخب دیوان صرف دو صد پینتیس غزلیات( بہ شمول فردیات) پر مشتمل ہے مگر فکر و فن کی ہُنر مندانہ آمیزش نے اس مختصر دیوان کو رفعت و عظمت کے اُس مقام پر پہنچا دیا جہاں ضخیم اور بھاری بھرکم دواوین کا گُزر نہیں۔ غالب نے حیات و کائنات کے مسائل کو اپنے مخصوص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور پھر انہیں تغزل کی چاشنی میں یوں گھُلا مِلا کر پیش کیا کہ فلسفہ شعر اور شعر فلسفہ کے ذائقے سے سرشار ہوا۔ غالب نے غزل کے تکنیکی عناصر کو ایک ایسی شان عطا کی جس نے غزل کے تکنیکی اُفق کو روشن اور اس کے فنی امکانات کو وسیع کر دیا۔


مرزا غالب اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے انفرادیت پسند تھے ، روشِ عام پر چلنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔ اُن کے عہد میں سنگلاخ زمینوں، مشکل ردیفوں ، انوکھے قافیوں، صنائع و بدائع کے کثیر استعمال اور دیگر لسانی نزاکتوں کو شعر کی آبرو اور جان سمجھا جاتا تھا ۔ غالب نے اس جادۂ شعر کو قبول نہیں کیا۔ ان کی فطری مشکل پسندی اور مضمون آفرینی کو فارسی کے بے بدل شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کا ’’ رنگِ بہار ایجادی‘‘ ( ۷۸) پسند آگیا اور انہوں نے اس رنگ کے اتباع سے اپنے لیے نیا راستہ بنانے کی کوشش کی ۔ بلند پروازی کی خواہش اور بیدل کے تتبع کے باعث اُن کا ابتدائی دور کا کلام اغراق کا شکار ہوا۔ انوکھی تشبیہات، مبہم استعارات، پیچیدہ تراکیب، غیر مانوس الفاظ اور فارسیت کے غلبے نے ان کے کلام کو بعید الفہم بنا ڈالا۔ منتخب دیوان میں اُس دور کا سارا کلام شامل نہیں تاہم کئی اشعار ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اُس دور کے طرزِ سخن کے گواہ ہیں ،جیسی:
شمارِ سجہ ، مرغوبِ بت ِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل پسند آیا

بہ فیضِ بیدلی ، نومیدیِ جاوید آساں ہے

کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

ہوائے سیرِ گُل آئینۂ بے مہریِ قاتل

کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا


مذاقِ عام نے کلام کی اس پیچیدگی اور ابہام کو پسند نہیں کیا، غالب کا کلام ہدفِ تنقید بنا اور ان کی مہمل گوئی کا تذکرہ جا بہ جا ہونے لگا۔ میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے طرزِ کلام سے ہٹ کر کسی نئی طرز کو قبول کرنا شعرائے دہلی کے مزاج کے خلاف تھا، مشاعروں میں چوٹیں ہونے لگیں۔حکیم مرزا جان عیش نے غزل میں قطعہ کہا جو دہلی کی ادبی محفلوں میں گونجنے لگا
:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے


کلامِ میر سمجھے ا ور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

مرزا غالب نے ’’ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘ کہہ کر معترضین کو خاموش کرنے کی کوشش کی مگر رفتہ رفتہ وہ کود اس رنگِ سخن سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس رنگِ سخن کی تبدیلی میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ کی صحبتوں کا بھی دخل ہے۔مشق و ممارست اور ذوقِ سلیم نے غالب پر یہ ظاہر کر دیا تھا کہ
:
طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
اسداللہ خاں قیامت ہے


طرزِ بیدل میں غالب کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغنی رقم طراز ہیں:
’’غالب، بیدل کا تتبع کیوں کامیابی سے نہ کر سکے۔ یہ سوال بھی بڑا دل چسپ ہے۔ میرے خیال کے مطابق غالب نے بیدل کے رنگ میں غزل کہنا اُس وقت شروع کیا جب کہ وہ ابھی نو مشق تھے، فکر پختہ نہ تھی اور ان کی روح اُن تجارب سے نا آشنا تھی جو تصوف کی عملی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے بیدل کو حاصل ہوئے تھے۔ علاوہ بریں علمی لحاظ سے بھی جو وسعت ِ نظر اور عمیق نگاہ بیدل کو میسر تھی، وہ غالب کے حصے میں نہ آئی اور پھر زمانے کے حالات بھی مختلف تھے جن سے بیدل ایک طرف تو فکری اور عملی لحاظ سے عظمت اور سربلندی کے علم بردار بنے اور دوسری طرف جہاں دار شاہ اور مغل امرا کی پستیِ فطرت کو دیکھ کر انہیں ایک حیات افروز انقلاب کا داعی بننا پڑا۔ غالب کے سامنے ایک از کار رفتہ،بے کار اور معطل معاشرہ تھا جس کی مایوس کن تباہ حالی کے زیرِ نظر غالب کو گوشۂ عافیت کی تلاش کے بغیر اور کُچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔
‘‘


(حالی سے ما قبل کی غزل پر ایک نظر:پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد


Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Farrah Zafar (Monday, April 16, 2012), Hamidullah Gul (Friday, April 20, 2012)