View Single Post
  #1  
Old Saturday, April 21, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Allama Iqbal: Fikr o Fun

سُورج کو چراغ ۔۔ علامہ اقبال (فکر و فن) کی تفہیم

محمد یعقوب آسی
حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔

اقبال کا عرصۂ حیات وہ تھاجب پوری دنیا کی سیاسی بساط تغیر پذیر تھی اور بڑی بڑی عالمی سیاسی قوتوں پر تبدیلیوں کے سائے منڈلا رہے تھے۔ برطانوی سامراج، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا، نوآبادیات پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے اثرات ابھی زوال پذیر بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے سائے لرزنے لگے۔ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ایک عرصہ بعد ہندوستان میں مغلیہ دور کا خاتمہ، پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں اور دوسری عالمی جنگ کے آثار،اسلامی دنیا کی بے حسی، چین میں سیاسی بیداری اور یورپی حکومتوں کا خلفشار، الغرض پوری دنیا بے چینی کا شکار تھی۔ ہندوستان کے اندر بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور یہاں کے دونوں بڑے مذہبی گروہ ہندو اور مسلمان بدیسی تسلط کے خلاف نہ صرف متحرک ہو چکے تھے بلکہ گاندھی اور محمد علی جناح جیسی شخصیات میدانِ عمل میں آ چکی تھیں۔ ان کی کوششوں کا رخ اگرچہ مختلف تھا، تاہم ایک قدرِ مشترک یعنی انگریزی تسلط سے نجات کی کوشش ضرور موجود تھی۔ سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے سماجی عوامل ایسے تھے جو کسی بھی صاحبِ دل کو بے چین کر دینے کے لئے کافی تھے۔

اقبال کی دور بین نگاہوں نے وہ مناظر بھی دیکھ لئے تھے جو عام ہندوستانی مسلمان کی نظر کی رسائی میں نہیں تھے۔ جستجو کا وہ مادہ جو ایک مردِ فقیر کی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا ہے، ان کی تمام شاعری میں نمایاں ہے۔ اسی عنصر کی کارفرمائی تھی کہ علامہ نے فارس کی تہذیب پر مابعدالطبیعیات کا مطالعہ کیا اور مذہبی افکار کی تہذیبِ نو پر کام کیا۔ انہوں نے مولانا روم سے لے کر ابن عربی اور نطشے تک کے افکار کو دیکھا پرکھا۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا تو امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پر تڑپ اٹھے۔ اقبال نے اسلامی دنیا کے مسائل کا عملی حل وہی پیش کیا جو قرونِ اولیٰ میں کامیاب ثابت ہو چکا تھا۔ اقبال کے پیغام کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہو گا کہ ’’مسلمانوں کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا!‘‘۔

اس پیغام کی ترسیل کے لئے فطرت نے اقبال کو نہ صرف حکیمانہ نظر عطا کی تھی بلکہ نوائے سروش سے بھی نوازا تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اقبال کی شاعری بلا مبالغہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے پیرائے کا تتبع بھی کسی سے نہ ہو سکا، اور اگر کہیں کسی نے کوئی ایک آدھ شعر اس ڈھنگ میں کہہ بھی لیا تو عوام الناس نے اس شعر کو بھی اقبال کے حساب میں ڈال دیا۔

آج بھی ناقدین کی اکثر محفلوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: شاعری میں فن کو اولیت حاصل ہے یا مقصد کو؟ جب کہ کلامِ اقبال کی صورت میں اس سوال کا شافی جواب ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے، جہاں فن اور مقصد دونوں ایک دوسرے کو نکھارتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں کلامِ اقبال ایک سرمدی پیغام بن جاتا ہے۔

اقبال کی دوسری بہت بڑی خصوصیت ان کے ہاں روایت سے ایسا مضبوط رابطہ ہے جس سے جدتیں پھوٹتی ہیں۔ ان کے بہت سے معاصرین اور متقدمین کے ہاں یہ عمومی مسئلہ رہا ہے کہ بہتوں کی روایت نے جمود کی صورت اختیار کر لی اور اگر کہیں جدید تجربے ہوئے بھی تو ان میں ادبی چاشنی بری طرح متاثر ہوئی۔ موضوعات کے حوالے سے اقبال سے پہلے گنتی کے چند شعراء ایسے ہیں جنہوں نے گل و بلبل اور لب و عارض سے ہٹ کر موثر لہجے میں بات کی ہو۔ اقبال کا اعجازِ بیان یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلے سے رائج معروف تراکیب کو نئے معانی عطا کئے اور یہ کارنامہ محض نئے الفاظ یا افکار متعارف کرا دینے سے کہیں آگے ہے۔ ان کے ہاں ’’گل و بلبل‘‘ روایتی محب اور محبوب کے قالب سے نکل کر مابعدالطبعیاتی سطح پر پہنچ جاتے ہیں، ’’جنوں‘‘ منفی معانی کی گرفت سے آزاد ہو کر ایک نصب العین بن جاتا ہے، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔

کلامِ اقبال کا خاصہ یہ ہے کہ دقیق موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کا انداز عالمانہ ہوتا ہے اور تعلقِ خاطر کے سادہ مضامین میں ان کے الفاظ نرم اور ملائم ہوتے ہیں۔ ان کا لہجہ مجموعی طور پر ’’دبنگ‘‘ ہونے کے باوجود، ان کے ہاں غزل کی نرماہٹ متاثر نہیں ہوتی اور نہ نظم کے بہاؤ میں کو رکاوٹ آتی ہے۔ ایسی کتنی ہی خصوصیات ہیں جو اقبال کے کلام کو اوروں سے ممتاز بناتی ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/thread...C%D9%85.31526/
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
aristotlekhan (Saturday, November 24, 2018), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)