View Single Post
  #2  
Old Thursday, June 14, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

ایک لیجینڈ افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی

ڈاکٹر افشاں ملک


ایک تخلیق کار کی حیثیت سے احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے گوناگوں پہلو ہیں۔ ادب کی تمام اصناف پر انہوں نے طبع آزمائی کی ہے جن میں شاعری، افسانہ نگاری، تنقید نگاری، بچوں و خواتین کے ادب کے علاوہ انشائیے اور ڈرامے بھی شامل ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر، کالم نویس، سیاسی مبصر اور ایک بہترین صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے جاپانی نظموں کے اردو میں تراجم بھی کئے، ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا ایک ڈراما ’شکست و فتح‘ ریڈیو پر خاصا مقبول ہوا۔ جہاں تک افسانہ نگاری کا تعلق ہے اب تک ان کے افسانوی ادب کا بڑا حصہ نہ صرف ہندی زبان میں منتقل ہو چکا ہے بلکہ بہت سے افسانے روسی، چینی اور انگریزی و فارسی کے ساتھ ساتھ پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی اور مراٹھی جیسی علاقائی زبانوں میں بھی منتقل ہو چکے ہیں۔ تنقید نگاری سے بھی انہوں نے پرہیز نہیں کیا۔ ’تہذیب و فن‘ اور ’ادب و تعلیم کے رشتے‘ ان کی تنقیدی کتابیں ہیں جو شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کے سلسلے میں 1963 میں پاکستان سرکار نے پہلی بار ان کے شعری مجموعے ’دشت وفا‘ کے لئے ’آدم جی ایوارڈ‘ سے نوازا۔ دوسری بار ان کے شعری مجموعے ’محیط‘ کے لئے 1976 میں اور پھر تیسرے مجموعے کلام ’دوام‘ کے لئے 1979 میں انہیں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان کے ادبی اعزازات میں یہ حکومت پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اس اعزاز کے علاوہ 1968 میں ’پرائیڈ آف پرفارمینس‘ کا سول اعزاز اور حکومت پاکستان کے ’ستارہ¿ امتیاز‘ جیسے وقیع اعزاز سے نوازا گیا۔



احمد ندیم قاسمی کی ترجیحات میں ’انسان‘ سرفہرست رہا۔ انہوں نے انسان کو بڑی اہمیت دی۔ دوست کو عزیز جانا اور دشمن کی تحقیر نہیں کی۔ وہ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے افسانہ نگار، اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔


اردو کے افسانوی ادب میں منشی پریم چند نے جو روایت شروع کی تھی اسے پروان چڑھانے کا سہرا منٹو، بیدی اور عصمت کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ پریم چند نے اردو افسانے کو خواب و خیال کی طلسماتی دنیا سے نکال کر براہ راست عام انسانی زندگی سے اس کا رشتہ جوڑا۔ احمد ندیم قاسمی نے منشی پریم چند کی اس روایت کو آگے بڑھایا اور ترقی پسند ادب کی مقصدیت کے ساتھ وابستہ ہونے والے افسانہ نگاروں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ اپنے ہم عصروں میں وہ اس لئے بھی امتیازی حیثیت رکھتے ہیں کہ جب ترقی پسند ادیب و شاعر مارکسی یا اشتراکی نظریہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پروپیگنڈائی ادب تخلیق کر رہے تھے انہوں نے اس وقت بھی اس اشتہاری ادب کی تخلیق سے گریز کیا اور ترقی پسند تحریک کے وہ رجحانات اپنائے جو معاشرے میں قابل قبول تھے اور دینی اور اخلاقی قدروں کا احترام سکھاتے تھے۔ انہوں نے مقصدیت کے پہلو پر زور دیتے ہوئے بھی اپنے فن کو مجروح نہیں ہونے دیا۔



احمد ندیم قاسمی نے دیہی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ شہری زندگی کے سماجی مسائل اور معائب کا بھی فنکارانہ ڈھنگ سے اظہار کیا۔ ان کے افسانوں میں شہر کی غربت، بے روزگاری، مزدور، بھکاری، کلرک، افسر وغیرہ کے مسائل بطور خاص شامل ہیں۔



ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے احمد ندیم قاسمی کی انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں کے لئے ایسے موضوعات کا بھی انتخاب کیا جن پر ان کے عہد کے دیگر افسانہ نگاروں کی نظر کم پہنچی۔ مثال کے طور پر پسماندہ مسلم طبقہ میں پانچ ضعیف الاعتقادی، توہمات، پیری فقیری اور اس کی آڑ میں چلنے والے غیر اخلاقی دھندے (جس کی مثال ان کا مشہور افسانہ ’بین‘ ہے) مذہب کے نام پر ظاہر داریاں اور فروعات کا غلبہ، دیہی معاشرے میں خاندانی رقابتیں یہ سب ان کے افسانوں کے موضوع بنے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کا افسانہ چاہے وہ پنجاب (اب پاکستان میں) کے دیہات کو موضوع بنا کر لکھا گیا ہو یا پنجاب کی شہری زندگی کو، وہ صرف پنجاب کے ماحول اور اس کی سرزمین تک محدود ہو کر نہیں رہ جاتا۔ اس کی اپیل آفاقی ہوتی ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ انسان روئے زمین کے جس خطے میں بھی ہے وہ جذباتی اور حسی سطح پر عموماً ایک ہی طرح محسوس کرنے والی مخلوق ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ وہ افسانوں کا تار و پود پنجاب کے ماحول میں رکھتے ہوئے بھی اسے ایسی وسعت دیتے ہیں جس میں پنجاب کے باہر کی دنیا بھی شامل ہو کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔احمد ندیم قاسمی کے فن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں رجائیت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ادب میں ایسے فنکاروں کی کوئی جگہ نہیں جو قنوطی ہوں اور ایسا فن بھی بیکار ہے جو قاری کو منفی انداز میں اداس کر دے۔ وہ زندگی کے تئیں منفی رویہ کو قابل قبول نہیں گردانتے۔ وہ انسانی زندگی میں مثبت قدروں کی وکالت کرتے ہیں۔


احمد ندیم قاسمی نے ایسے افسانوں میں سماجی مسائل کو اولیت دیتے ہوئے کردار نگاری پر خاصی توجہ دی ہے اور کرداروں کی داخلی اور خارجی کیفیات کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیاتی الجھنوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں جب جنسی موضوعات کو اٹھایا تب بھی فحاشی اور عریانیت سے گریز کیا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود ان کا ادب پروپیگنڈہ نہیں بن سکا۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں الحاد پرستی کی بھی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ انہوں نے تجریدی اور علامتی افسانے کلھ کر بھی افسانوی فضا کو شدت اور تاثر سے بھر دیا۔



احمد ندیم قاسمی چونکہ ایک شاعر بھی ہیں اس لئے ان کے یہاں حسن بلاخیز اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ حسن کے یہ نظارے ان کے افسانوں کے ماحول کے علاوہ کرداروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ فطرت کی حسن کاری سے احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے فن میں اضافہ ہوتا ہے۔ قاسمی فطری مناظر میں چاند، تارے، سورج، آسمان، بادل، ہوا، پھول، جھرنے، تالاب، ندیاں، پگڈنڈیاں وغیرہ کی منظر کشی اس شدت تاثر سے کرتے ہیں کہ قاری اس خوبصورت منظر کشی کے بیان محض سے ہی محسور ہو جاتا ہے۔ فطری حسن کی ایسی پیش کش پریم چند کے یہاں بھی مفقود ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے یہ حسن کاری صرف فطری مناظر کی عکاسی میں ہی نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنے افسانوں کے کرداروں میں بھی حسن کی ایسی ہی کرشمہ سازی کو پیش کرتے ہیں۔ کرداروں کی خوبصورتی کا بیان اتنی شدت سے ان کے یہاں ہوا ہے کہ قاری اس کے تاثر سے بچ نہیں پاتا۔ انسانی حسن کی تصویر کشی ان کے کئی افسانوں میں دیکھی جا سکتی ہے جن میں افسانہ ’پہاڑوں کی برف‘، ’نصیب‘، ’لارنس آف تھیلیبیا‘، ’بھاڑا‘، ’بدنام‘ جیسے افسانے خصوصی طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ حسن کی یہ فنکارانہ پیش کش ہی ہے جس کی وجہ سے ان کا فن جمالیات کی بلندیوں کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔ مناظر فطرت سے افسانہ نگار کا اس شدت سے لگاﺅ بھی احساس جمال کا ہی ایک پہلو گردانا جائے گا۔



ترقی پسند تحریک کے کئی افسانہ نگار ایسے ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں میں ایسے کرداروں اور ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جن سے ان کی واقفیت سنی سنائی یا تخیلاتی ہے۔ عملی اور تجرباتی کم ہے اس کے برعکس احمد ندیم قاسمی ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے دیہی زندگی کے اس طبقاتی اور معاشرتی نظام میں برسوں تک شرکت کی ہے جو مذہبی توہم پرستی، فرسودگی اور روایت زدگی میں مبتلا تھا۔ وہ اس معاشرتی وضع زندگی سے بھی بذات خود گزرے ہیں جن میں خاندانی عداوتیں اور اس کے نتیجے میں نسل در نسل چلنے والی رقابتیں، انتقامی روش، دیہی زندگی کا مہاجنی معاشرہ، زرعی رسم و رواج، فطرت کی گود میں پلنے والے نیز فطری مناظر سے ہم آہنگ لوگوں کے اخلاق و کردار، ان کے رویے، رسمیں اور رومان، پھر گاﺅں سے شہر منتقل ہونے والی زندگی کی چہل پہل، اس کا تصنع پن، دوستی اور منافقت، آپسی داری اور موقع پرستی یعنی ہر ذہنی رویہ کے کرداروں کی عملی رفاقت میں سارا کچھ ان کے ذاتی اور انفرادی تجربوں سے گزرا ہے۔ جتنی موضوعات کو اٹھاتے وقت بھی ان کا قلم بے راہ روی کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ جتنی نا آسودگی کے باعث پیدا ہوئی صورت حال یا جنسی گھٹن کو انہوں نے بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ جنسی نا آسودگی کے سبب اٹھنے والے غلط قدموں کو انہوں نے اپنے افسانے ’ہیروشیما سے پہلے ہیروشیما کے بعد‘ اور ’کنجری‘ میں بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ جنسی گھٹن کے سبب پاگل ہو جانے والی ایک معصوم لڑکی پر لکھا گیا افسانہ ’ماسی گل بانو‘ ایک بہترین افسانہ ہے۔


احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں صرف مجبور اور بے کس کردار ہی تخلیق نہیں کئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اس معاشرتی نظام کے خلاف آواز اٹھانے والے کردار بھی ہیں۔ محبت کے جذبے پر ایمان رکھنے والے کردار بھی ہیں اور محبت میں جان دینے والے اور جان لے لینے والے کردار بھی ہیں۔ ان افسانوں میں ’عالاں‘، ’حق بجانب‘، ’طلائی مہر‘، ’بھوت‘، ’جن و انس‘، ’بے گناہ‘ اور ’میرا دیس‘ جیسے افسانوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔



احمد ندیم قاسمی کے کردار سادہ و معصوم بھی ہیں، عیار و مکار بھی ہیں، نیک اور گنہ گار بھی ہیں۔ ان میں محبت کا جذبہ بھی موجود ہے اور نفرت کا بھی، خلوص اور نیک نیتی بھی ان کرداروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کرداروں کی ذہنی کیفیات کی بہترین عکاسی اور زبان کی سادگی اور سلاست سے افسانوں میں حقیقت نگاری کا پہلو بھی واضح صورت میں نمایاں ہو گیا ہے۔


تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے واقعات کی عکاسی کرتے ہوئے قاسمی نے مہاجروں اور کمزور طبقے کے دہقانوں کی نفسیات کا جائزہ بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ لٹے پٹے مہاجروں سے جاگیرداروں کے ناروا سلوک اور ظالمانہ رویہ کو انہوں نے اپنے ایک افسانے ’جب بادل امڈے گا‘ میں بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ تقسیم ہند پر ان کا افسانہ ’پرمیشر سنگھ‘ حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہے۔



احمد ندیم قاسمی نے تقریباً 17 افسانوی مجموعے اردو ادب کو دئیے ہیں۔ ان کے مشہور ترین افسانوں میں ’کفن دفن‘، ’رئیس خانہ‘، ’الحمدللہ‘، ’بین‘، السلام علیکم‘، ’بابا نور‘، ’بیرا‘، ’موچی‘، ’خربوزے‘، ’ماسی گل بانو‘، ’ماں‘، ’آتش گل‘، ’نیلا پتھر‘، ’عاجز بندہ‘، ’بے گناہ‘، ’سلطان‘ وغیرہ وغیرہ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی نے اپنی شخصیت کی گوناگوں خصوصیات کا عکس اپنے افسانوں پر بھی چھوڑا ہے۔ دراصل ان کی شخصیت کی تشکیل میں جو دیگر عناصر اور محرکات کارفرما رہے ان میں ان کی اصلاح پسند شخصیت، درد مند دل، بے خوف، بے باک اور غیر جانب دار صحافی، بے غرض نقاد اور فطری شاعری کا خاصا دخل ہے اور یہ وہ منجملہ خصوصیات ہیں جو احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری کو نہ صرف بلندی عطا کرتی ہیں بلکہ دوامی شہرت بھی بخشتی ہیں۔



احمد ندیم قاسمی کا کمٹ منٹ کسی سیاسی یا عمرانی نظریے سے نہ ہو کر سماج کے اس انسان کے ساتھ ہے جو زمین کے کسی بھی خطے پر موجود ہے اور عصر حاضر کی تمام الجھنوں، پریشانیوں اور ناانصافیوں کی زد میں ہے اور ادیب کی چشم توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔
http://www.thesundayindian.com/ur/st...writer/7/1020/

Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
aristotlekhan (Thursday, November 29, 2018), rao saadia (Wednesday, November 21, 2012), Shai (Thursday, November 21, 2013)