وہ دل کی بری نہ بے وفا تھی
وہ مجھ سےجدا کبھی نہیں تھی
وہ ہم نوا دسترس سے باہر
وہ تارا بساط مال ہی تھی
وہ ہی تھی کہ بے نیاز اس سے
جو میری انا کا سائباں تھی
بچھڑنا اسے محال ہی تھا
وہ میرےخیال و عکس میں تھی
وہ رویا کہ بارشوں میں کرتی
وہ رہتی فلک کہ پار ہی تھی
گو وہ ہی فریب روح ٹھہری
سادہ بھی کیا کمال ہی تھی
تنہا جو سفر کٹے جدھر بھی
وہ میرا عشق عین ہی تھی
گل رعنا جہان کا عطر عنبر
تھا اسکا تذکرہ کہ ہر آن
اس کو بھی شکوک نے رلایا
آئینہ کمال ناز ہی تھی
ہوئی کشتہ کہ شیش اندام
وہ سنگوں کی واردات ہوئی
میں پرویں کہوں ہی یا ثریا
وہ تشنہ کتاب دل کی ہی تھی
اس کا ہی طلسم نورؔ کیا ہے
در پیش مہر بھی ماند ہی تھا
سعدیہ نور شیخ
__________________
"Wa tu izzu man-ta shaa, wa tu zillu man-ta shaa"
Last edited by Arain007; Wednesday, April 23, 2014 at 07:48 PM.
|