وصلِ موجِ سوز نے جو دیوانہ کیا
اب ٹھکانہ میرا بھی ویرانہ کیا
قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے کچھ اس طرح یارانہ کیا۔
نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
الجھنوں نے بےطرح دیوانہ کیا
رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
اب اجل نے دار پر مستانہ کیا
:
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے مجھے پروانہ کیا
شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
رب! گلہ تجھ سے جو گستاخانہ کیا
صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے حال سے بیگانہ کیا