عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک مرتبہ اپنی ملکہ کے ساتھ شکار پر جا رہے تھے کہ راستے میں بہلول داناسے ملاقات ہوئی جو بلند آواز میں کہہ رہے تھے… کوئی ہے جو دنیا میں دینار دے اور آخرت میں اُس کے بدلے موتیوں کا محل لے… ہارون الرشید اُنہیں احمق اورپاگل سمجھ کر گزر گئے… پیچھے سے ملکہ زبیدہ خاتون کی سواری آ رہی تھی…
اُنہوں نے بہلول کی آواز سن کر کچھ دینار اُنہیں دیے اور چلی گئیں…اُسی رات کو خلیفہ ہارون الرشید نے خواب میں دیکھا کہ جنت میں ایک بہت ہی خوبصورت باغ ہے… جس پر قصرِ زبیدہ لکھا ہوا ہے… جب اُنہوں نے بیوی کا محل سمجھ کر اندر جانے کی کوشش کی تو دربان نے فوراً روکا اور کہا کہ واپس جائیے … وہ بڑے پشیمان ہوئے…
پھراُن کی آنکھ کھل گئی…خلیفہ ہارون الرشیدنے صبح ملکہ زبیدہ سے اِس خواب کا ذکر کیا اور پوچھا کہ تم نے ایسا کون سا کام کیا تھا کہ جس کے سبب جنت میں ایسا محل تعمیر ہوا…ملکہ زبیدہ نے کہا… ایسی کوئی خاص نیکی تو مجھ کو یاد نہیں البتہ ہاں کل حضرت بہلول مجھے ملے تھے
… جو کہہ رہے تھے کہ کوئی ہے جو دنیا میں دینار دے اور آخرت میں اُس کے بدلے موتیوں کا محل لے …تو میں نے کچھ دینار اُن کو دیے تھے بس یہی نیکی کی تھی …ہارون الرشید اُسی وقت بہلول داناسے ملنے روانہ ہوئے… آخر کار ایک جگہ اُن کو حضرت بہلول چپ چاپ بیٹھے دکھا ئی دیے… آپ نے اُن سے پوچھا…حضرت آج محل نہیں بیچیں گے؟… بہلول دانا نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ آخرت کے سودے دیکھ کر نہیں ہوتے