Saturday, April 27, 2024
10:39 AM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > Off Topic Section > Islam

Islam Invite to the Way of your Lord with wisdom and fair preaching, and argue with them in a way that is better. Truly, your Lord knows best who has gone astray from His Path, and He is the Best Aware of those who are guided." Holy Qur'an 16:125

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #1  
Old Wednesday, November 28, 2012
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default محبت کا دعویٰ

حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ معاش کیا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر خزانہ تھا۔ جب بھی کوئی مہمان آتے۔ ایک یا زیادہ ․․․․․․․․ انکو کپڑے کی ضرورت ہوتی‘ انکو روٹی کی ضرورت ہوتی‘ انکو کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ارشاد فرماتے تھے اور میں کسی سے قرض لے لیتا اور اس ضرورت مند کی ضرورت پوری کردیتا۔
ایک دن ایک یہودی مجھے ملا۔ وہ کہنے لگا کہ تمہیں ہر مہینے قرض لینا پڑتا ہے‘ تم مجھ سے قرض لے لیا کرو اور پرواہ نہ کرو۔ میں نے کہا بہت بہت شکریہ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تو میں اسکے پاس پہنچ جاتا قرض کیلئے۔ ابھی مہینہ ختم ہونے میں کوئی تین چار دن باقی تھے میں وضو کر کے اذان کیلئے تیاری کر رہا تھا کہ اتنے میں وہ یہودی آیا اور اسکے ساتھ کچھ اور آدمی بھی تھے‘ مجھے کہنے لگا اُو حبشی غلام! مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں‘ میں نے کہا یہی کوئی دو چار دن باقی ہیں۔ کہنے لگا اگر مہینہ ختم ہونے پر میرا قرض ادا نہ کیا تو تجھ کو بیچ دونگا اور اس طرح اونٹ جاکر چرائے گا جس طرح پہلے چرایا کرتا تھا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

مجھے وہ صدمہ ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد میں حاضر خدمت ہوا اَور میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ یہودی جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا کہا ہے۔ وہ یہودی ہے‘ اسکو تو کوئی ادب نہیں لحاظ نہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت فرمائیں تو میں اتنی دیر کیلئے باہر چلا جاؤں‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کیلئے کوئی انتظام فرما دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا! (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس “بہت اچھا” پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے۔ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نہیں ٹوکا۔ ایسی عجیب ہستی تھی) فرمایا کہ میں نے اپنی تلوار‘ اپنی ڈھال اور اپنے جوتے سرہانے رکھ لیے اور صبح صادق کے انتظار میں بیٹھ گیا کہ ذرا روشنی ہو جائے تو جاتا ہوں۔ اتنے میں ایک آدمی آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو یاد فرماتے ہیں۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در دولت پر چار اونٹنیاں بیٹھی تھیں اور لدی ہوئی تھیں۔ ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے تیرے قرضے کا انتظام فرما دیا ہے۔ یہ اونٹنیاں جو غلے سے لدی ہوئی ہیں‘ فلاں صاحب نے مجھے بھیجی ہیں‘ جاؤ اپنا قراضہ ادا کرو‘ یہ تمہاری ہیں۔ میں بہت خوش ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھی۔ میں نے ان اونٹنیوں کو بھی اور جو ان پر لدا ہوا تھا اسکو بھی بیچا اور اس یہودی کا قرضہ ادا کای اور بھی جتنے قرضے تھے سب ادا کیے اور حاضر خدمت ہوکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام بوجھ ادا کردیا ہے۔ فرمایا کچھ بچا بھی ہے۔ عرض کیا حضرت ابھی تو کچھ بھی نہیں خرچ ہوا‘ بہت کچھ ابھی باقی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ میں مسجد سے اس وقت گھر جاؤنگا جب تم اسکو خرچ کر دوگے۔مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرے پاس کچھ مال ہو اور میں اس مال کے ساتھ رات اپنے گھر میں گزاروں ، میں نے کہا حضرت اتنا جلدی تو خرچ نہیں ہوسکتا۔ فرمایا پھر میں بھی گھر نہیں جاتا‘ رات اسی مسجد میں گزاروں گا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں دوسرے دن میں نے نمٹایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ سارا مال خرچ ہوگیا ہے‘ ٹھکانے لگ گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا الحمد للہ! اور آپ اپنے گھر میں تشریف لے گئے

دو جہانوں کے بادشاہ اور گھر کی حالت یہ کہ مہمانوں کی خاطر مدارت کے لیے بھی قرض لینا پڑا اور پھر اگر کہیں سے کچھ مال آ بھی جاتا تو جب تک تقسیم نہ کر دیتے چین نہ آتا ، اور پھر بھی ساری ساری رات اللہ کی عبادت کرتے اور شکر ادا کرتے
اور ہم ، اس نبی کے نام لیوا اس نبی سے محبت کا دعویٰ کرنے کے باوجود دیکھ لیں کہ اللہ نے ہمیں کیا کچھ دیا ہوا ہے لیکن پھر بھی ناشکری ہی کرتے ہیں اور اللہ نہ کرے کہ کبھی فاقہ آ جائے تو نعوذ باللہ کچھ لوگ تو کفریہ کلمات تک کہہ دیتے ہیں
محبت کا دعویٰ تو تب ہی سچا ثابت ہو گا جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری پیروی کریں
اللہ عمل کی تو فیق دے
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 8 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
Arain007 (Wednesday, November 28, 2012), aristocrat of heart (Monday, March 18, 2013), helloinspector (Sunday, January 24, 2016), Kamran Chaudhary (Wednesday, November 28, 2012), mariashamshad (Wednesday, March 20, 2013), Muhammad humayun (Thursday, November 29, 2012), saira123 (Friday, March 08, 2013), sapphireg (Saturday, December 01, 2012)
  #2  
Old Saturday, December 01, 2012
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default لعاب پاک ھوتا ھے یا پلید


مصر پراحمدبن طولون کی حکومت تھی .حکمران لوگوں پر ظلم ڈھارھےتھے،منکرات میں اضافہ ھوگیاتھا.لوگ خاصے پریشان تھے،حاکم کے پاس جاکر شکایت کرنےکی کسی میں جرات نہ تھی. ڈرتھاکہ اگرشکوہ کیاتوالٹے مصیبت میں پھنس جائیں گے لیکن علماۓ حق ہردورمیں کلمہ حق جابر حکمران کے سامنے کہتے آۓ ھیں.ابو الحسن بنان بن محمد حمدان بن سعید اپنے وقت کے مشہورعالم اورزہاد تھے.وہ حاکم کےسامنے پیش ھوۓ اورحکومت کی غلطیوں کی نشاندھی کی.اس کو ظلم وستم پرٹوکااورحق بیان کیا. ابن طولون سے حق کیسے براداشت ھوتا.طولون کواس حق گوئی پر بہت غصہ آیا.حکم دیاکہ اس کوگرفتارکرکے قیدخانے میں ڈال دیاجاۓ.حکم کی تعمیل ھوئی اوراگلاحکم بھی جاری ھوگیاکہ ابوالحسن کوبھوکے شیر کے سامنے ڈال دیاجاۓ.
ایک بہت بڑے ببرشیر کوکئ دنوں تک بھوکارکارکھاگیا.
لوگوں میں منادی کروائی گئ کہ منظردیکھنےکےلیے جمع ھوجائیں.ایک بہت بڑے میدان میں لوگ اکٹھے ھوۓ.شیخ ابو الحسن کوہتھکڑیاں لگاۓ ھوۓ میدان میں لایاگیا.شیرکوپنجرے سے نکالاگیااورشیخ ابوالحسن کو شیرکے سامنے سامنے ڈال دیاگیا.مجمع میں
شیخ ابوالحسن کے شاگرد اورچاہنے والے بھی تھے.یہ دیکھ کران کی چیخیں نکل گئیں.لوگوں نے دم روک لۓ ،ان کاخیال تھاکہ چشم زدن میں شیرشیخ ابوالحسن کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا.مگر دیکھنے والوں نے دیکھاشیر ان کی طرف تیزی سے لپکا.قریب ھواان کےجسم کوسونگھنے لگ گیااور پھر ایسامحسوس ھواکوئی طاقت شیر کو شیخ ابوالحسن سے دور کررھی ھے اور لوگوں نے دیکھا شیر بڑے ادب سے دور ھٹ کر کھڑاھوگیا.
لوگوں نے بلند آواز سے لاالہ الااللہ اور اللہ اکبر پکارناشروع کردیا.ابن طولون کاسر شرم سے جھک گیا.اس نے حکم دیاکہ شیخ کو باعزت رھاکردیاجاۓ.اس متقی اور زاہد سے لوگوں نے سوال کیا:ابوالحسن!جب شیر آپ کی بڑھ رھاتوآپ کیاسوچ رھےتھے.جواب دیا"مجھے قطعاکوئی خوف اورڈرمحسوس نھیں ھوا.میں تواس وقت یہ سوچ رھاتھاکہ درندے کے منہ نکلنے والالعاب پاک ھوتاھے یاپلید."
پھر فرمایا: بلاشبہ اللہ کاوعدہ سچاھے.
بے شک اللہ ان لوگوں کی طرف دفاع کرتاھے جو ایمان لاۓ ،بے شک اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بڑا خائن ،بہت ناشکراھو(سورۃ الحج:38 )

__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016), Muhammad humayun (Saturday, December 01, 2012)
  #3  
Old Monday, December 03, 2012
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default * منافع کا سودا *

* منافع کا سودا *

سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنو
ا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔

مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔ ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔ ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟ اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔

ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔ ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔ بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟ ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔ ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا. ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔

دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016)
  #4  
Old Saturday, February 02, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

کتنا مغرور ہے یہ شخص

ڈاکٹر تیزی سے ہسپتال میں داخل ہوا ، کپڑے تبدیل کیے اور سیدھا آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھا ۔ اسے ایک بچے کے آپریشن کے لیے فوری اور ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا ۔

ہسپتال میں موجود بچے کا باپ ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر چلایا ، "اتنی دیر لگا دی؟ تمہیں پتا نہیں میرا بیٹا کتنی سخت اذیت میں ہے ، زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ، تم لوگوں میں کوئ احساس ذمہ داری نہیں ہے ؟"۔

"مجھے افسوس ہے میں ہسپتال میں نہیں تھا ، جیسے ہی مجھے کال ملی میں جتنی جلدی آ سکتا تھا آیا ہوں " ، ڈاکٹر نے مسکرا کر جواب دیا ۔ "اب میں چاہوں گا کہ آپ سکون سے بیٹھیئے تاکہ میں اپنا کام شروع کر سکوں"

"میں اور سکون سے بیٹھوں ، اگر اس حالت میں تمہارا بیٹا ہوتا تو کیا تم سکون سے بیٹھتے ؟ اگر تمہارا اپنا بیٹا ابھی مر رہا ہو تو تم کیا کرو گے ؟" باپ غصے سے بولا ۔

ڈاکٹر پھر مسکرا کر کہا ، " ہماری مقدس کتاب کہتی ہے کہ ہم مٹی سے بنے ہیں اور ایک دن ہم سب کو مٹی میں مل جانا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے اور غفور رحیم ہے ڈاکٹر کسی کو زندگی نہیں دیتا نہ کسی کی عمر بڑھا سکتا ہے ۔ اب آپ آرام سے بیٹھیں اور اپنے بیٹے کے لیے دعا کریں ۔ ہم آپ کے بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کریں گے "۔

"بس ان لوگوں کی نصیحتیں سنو چاہے تمہیں ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو ۔ بچے کا باپ بڑبڑایا "۔
آپریشن میں کئ گھنٹے لگ گئے لیکن بالآخر جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، " تمہارا بیٹا اب خطرے سے باہر ہے ، اگر کوئ سوال ہو تو نرس سے پوچھ لینا" ۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا ۔

"کتنا مغرور ہے یہ شخص ، کچھ لمحے کے لیے بھی نہیں رکا کہ میں اپنے بچے کی حالت کے بارے میں ہی کچھ پوچھ لیتا" ، بچے کے باپ نے ڈاکٹرکے جانے بعد نرس سے کہا ۔

نرس نے روتے ہوئے جواب دیا ، " اس کا بیٹا کل ایک ٹریفک کے حادثے کا شکار ہو گیا تھا ، جب ہم نے اسے آپ کے بیٹے کے لیے کال کی تھی تو وہ اس کی تدفین کر ریا تھا ۔ اور اب جبکہ اس نے آپ کے بیٹے کی جان بچالی ہے دوبارہ تدفین کو مکمل کرنے گیا ہے"۔

کبھی کسی پر بےجا تنقید نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ دوسرے کی زندگی کیسی ہے اور وہ کن کن مشکلات میں مبتلا ہے
تم نہیں جانتے کہ وہ تمہارے کام آنے کے لیے کتنی بڑی قربانی دے رہا ہے ۔
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
bl chughtai (Saturday, February 02, 2013), helloinspector (Sunday, January 24, 2016), mariashamshad (Wednesday, March 20, 2013), Muhammad T S Awan (Sunday, February 03, 2013)
  #5  
Old Sunday, February 03, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

کھجور کی گٹھلیاں


ایک دفعہ ایک بادشاہ مع وزیر کے جنگل کی سیر کو گیا‘ ایک بوڑھے کو دیکھا کہ باغ میں گٹھلیاں بورہا ہے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اس سے پوچھو کیا بورہا ہے۔ جب وزیر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ کھجور کی گٹھلیاں بورہا ہوں‘ بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کتنے برس میں پھل لے آئیں گے۔ بوڑھے نے کہا کہ بیس پچیس سال کے بعد۔ بادشاہ ہنسا کہ بوڑھے میاں کے پیر قبر میں لٹک رہے ہیں اور بیس پچیس سال آئندہ کا سامان کررہے ہیں۔ وزیر نے یہ بات بوڑھے سے کہی تو وہ کہنے لگا کہ اگر سب باغ لگانے والے یہی سوچا کرتے جو تم سوچتے ہو تو آج تم کو ایک کھجور بھی نصیب نہ ہوتی۔ میاں! دنیا کا کام یوں ہی چلتا ہے کہ کوئی لگاتا ہے‘ کوئی کھاتا ہے۔ بادشاہ نے یہ معقول جواب سن کر کہا نَعَم”بے شک صحیح ہے“- بادشاہ کا یہ قاعدہ تھا کہ جس شخص کی بات پر نَعَم کہہ دیا اس کو ایک ہزار دینار دئیے جائیں۔ چنانچہ وزیر نے اس وقت ایک ہزار دینار کا توڑا اس کے حوالے کیا۔ اس کے بعد دونوں آگے چلنے لگے۔ تو بوڑھے نے کہا کہ میری ایک بات سنتے جائو- وزیر نے کہا کہو کیا بات ہے؟

بوڑھے نے کہا کہ کسی کا بیج تو بیس پچیس سال میں پھل لاتا ہے لیکن میری بیج نے ایک ہی ساعت میں پھل لے کے آیا۔ بادشاہ نے پھر کہا نَعَم ۔ وزیر نے ایک ہزار دینار کا دوسرا توڑا اس کے حوالے کیا۔ پھر آگے چلنے لگے تو بوڑھے نے کہا کہ چلتے چلتے میری ایک اور بات سنیے اور وہ بات یہ ہے کہ کسی کا بیج تو سال میں ایک مرتبہ پھل لاتا ہے اور میرا بیج تو ایک ہی ساعت میں دو مرتبہ پھل لے آیا۔ بادشاہ نے خوش ہوکر پھر کہا نَعَم وزیر نے ایک ہزار دینار کا تیسرا توڑا بوڑھے میاں کو حوالے کیا۔ وزیر نے بادشاہ سے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! ہمیں یہاں سے اب جلدی جانا چاہیے کیونکہ ہم نے اس بوڑھے کو بے وقوف سمجھا تھا لیکن وہ بہت عقلمند نکلا۔ باتوں باتوں میں ہم کو لوٹ لے گا۔

محترم قارئین! جب سلاطین دنیا کی یہ عطا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر خوش ہوکر اتنا دیتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اگر بے شمار عطا فرماۓ تو کیا عجب ہے۔ اگر ہم سب یہ عزم کریں کہ ہر وقت اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور تعریف کریں تو اللہ تعالیٰ ہماری ان باتوں سے خوش ہوکر کتنا بڑا انعام عطا فرماۓ گا۔
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016)
  #6  
Old Friday, March 08, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

مجھے اللہ سے شرم آرہی ہے


خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی خلیفہ ہشام بن عبد الملک بن مروان بیت اللہ شریف کے حج کو آیا- طواف کے دوراں میں اس کی نگاہ زاہد و متقی اور عالم ربانی سالم بن عبداللہ بن عمر رض پر پڑی جو اپنا جوتا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے- ان کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13 درھم سے زیادہ نہیں تھی-

خلیفہ ہشام نے کہا:
"کوئی حاجت ہو تو فرمائے"-

سالم بن عبداللہ رض نے کہا:
" مجھے اللہ سے شرم آرہی ہےکہ میں اس کے گھر میں ہوتے ہوئے کسی اور کے سامنے دست سوال دراز کروں"-

یہ سننا تھا کہ خلیفہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا- اس نے سالم بن عبداللہ رض کے جواب میں اپنی سبکی محسوس کی- جب سالم بن عبداللہ حرم شریف سے باہر نکلے تو وہ بھی ان کے پیچھے ہی حرم سے نکل پڑا اور راستہ میں ان کے سامنے آکر کہنے لگا:
" اب تو آپ بیت اللہ سے باہر نکل چکے ہیں ، کوئی حاجت ہو تو فرمائيں (بندہ حاضر ہے)"-

سالم بن عبداللہ گویا ہوئے:
" آپ کی مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا اخروی حاجت سے؟!"-

خلیفہ ہشام نے جواب دیا:
"اخروی حاجت کو پورا کرنا تو میرے بس میں نہیں؛ البتہ دنیاوی ضرورت پوری کرسکتا ہوں؛ فرمائيں-

سالم بن عبداللہ کہنے لگے:
" میں نے دنیا تو اس سے بھی نہیں مانگی ہے جس کی یہ ملکیت ہے- پھر بھلا میں اس شخص سے دنیا کیوں طلب کرسکتا ہوں جس کا وہ خود مالک نہیں؟!"-

یہ کہ کر اپنے گھر کی طرف چل دیے اور ہشام بن عبدالملک اپنا سا منہ لے کر رہ گیا-
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016), Muhammad T S Awan (Friday, March 08, 2013)
  #7  
Old Sunday, March 17, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default امن و امان

امن و امان

ایک دفعہ ایک بادشاه نے ایک کمہار کے گدھوں کو ایک قطار میں چلتے دیکھا۔ کمہار کو بلایا اور پوچھا یہ کس طرح سیدھے چلتے ہیں۔ کمہار نے کہا جو لائن توڑتا ہے اس کو سزا دیتا ہوں۔ بادشاہ بولا میرے ملک میں امن و امان ٹھیک کر سکتے ہو۔ کمہار نے حامی بھر لی اور بادشاہ کےساتھ چل پڑا۔

دارالحکومت پہنچتے ہی عدالت لگا لی‘ چور کا مقدمہ آیا تو چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی۔ جلاد نے وزیراعظم کی طرف اشارہ کیا کہ چور کو انکی سرپرستی حاصل ہے۔ کمہار نے پھر حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ وزیراعظم سمجھا شاید جج کو پیغام کی صحیح سمجھ نہیں آئی۔ وہ آگے بڑھا۔ کمہار کے کان میں کہا کہ یہ اپنا آدمی ہے۔ کمہار نے بطور جج فیصلے کا اعلان کیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے بادشاہ نے فیصلہ پر عمل کرایا۔ آگ و خون کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک میں ایک فیصلہ سے ہی مکمل امن قائم ہو گیا۔

اگر گنہگار کی سفارش کرنےوالی زبان کاٹ دی گئی۔
...
اگر اپنوں کی سرپرستی چھوڑ دی گئی۔

اگر مخالفین کو پھنسانے کی سیاسی چالیں بند کر دی گئیں

تو گولیاں بھی بند ہو جائیں گی اور قتل و غارت بھی رک جائےگا، امن بھی قائم ہو جائےگا..!
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016), Muhammad T S Awan (Saturday, March 23, 2013), Roqayyah (Tuesday, March 19, 2013), sabahatbhutta (Wednesday, June 05, 2013)
  #8  
Old Saturday, March 23, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

انقلاب آگیا


حضرت سری سقطیؒنے ایک شرابی کو دیکھا جو مدہوش زمین پر گرا ہوا تھا اور اپنے شراب آلودہ منہ سے اﷲ اﷲ کہہ رہا تھا۔ حضرت سری سقطیؒ نے وہیں بیٹھ کر اس کا منہ پانی سے دھویا اورفرمایا:’’اس بے خبر کو کیا خبر؟ کہ ناپاک منہ سے کس پاک ذات کا نام لے رہا ہے۔‘‘ اس کا منہ دھوکر آپ چلے گئے۔

جب شرابی کو ہوش آیا تو لوگوں نے اسے بتایا: ’’تمہاری بے ہوشی کے عالم میں حضرت سری ؒ یہاں آئے تھے اور تمہارا منہ دھو کر گئے ہیں۔‘‘ شرابی یہ سُن کر بڑا پشیمان اور نادم ہوا اور رونے لگا، اپنے نفس کو مخاطب کرکے بولا:’’ بے شرم! اب تو سریؒ بھی تجھے اس حال میں دیکھ گئے ہیں، اﷲ عزوجل سے ڈر اور آئندہ کے لیے توبہ کر۔‘‘

رات کو حضرت سری سقطیؒ نے خواب میں کسی کہنے والے کو یہ کہتے سنا۔ ’’اے سریؒ! تم نے شرابی کا ہماری خاطر منہ دھویا۔ ہم نے تمہاری خاطر اس کا دل دھودیا۔

‘‘ حضرت سری سقطیؒ تہجد کے وقت مسجد میں گئے تو اس شرابی کو تہجد پڑھتے ہوئے پایا۔ آپؒ نے اس سے پوچھا:’’ تم میں یہ انقلاب کیسے آگیا؟‘‘ وہ بولا: ’’آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں، جب کہ اﷲ عزوجل نے آپ کو بتادیا ہے۔‘‘
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016), Muhammad T S Awan (Saturday, March 23, 2013)
  #9  
Old Friday, April 26, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default


مجھے شرم آتی ہے

ایک دفعہ ایک بزرگ آدمی کی آنکھوں کا آپریشن ہوا. ڈاکٹر نے احتیاط اور پرہیز بتاۓ اور ساتھ میں یہ بھی کہا کے اگلے معائنہ تک نماز میں جھکنے سے پرہیز کریں یا پھر اشارے سے نماز پڑھ لیں.گھر آ جانے کے بعد اس بزرگ نے کھانا پینا کم کر دیا. اسکے گھر والوں کو پریشانی ہونے لگی. انہوں نے دوبارہ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے کہا کہ ہو سکتا ہے روٹی یا کھانا چباتے وقت آنکھوں میں درد ہوتا ہو اس لیئے اسنے نرم چیزیں کھلانے کا کہا. ایک دو دن تک گھر والوں نے دیکھا مگر بزرگ نے کھانے میں کوئی تبدیلی نہ لائی.

کچھ دنوں بعد انہوں نے بزرگ سے پوچھ لیا کہ آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟ ڈاکٹر نے تو سجدہ کرنے سے منع کیا تھا نہ کہ کھانا کھانے سے! تو بزرگ نے جواب دیا کے " جس کو سجدہ نہیں کر سکتا اسکا رزق کھاتے ہوے مجھے شرم آتی ہے."
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
Arain007 (Friday, April 26, 2013), helloinspector (Sunday, January 24, 2016)
  #10  
Old Saturday, June 15, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default


آتش پرست اور جنّت


شمعون نامی مشہور آتش پرست خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا پڑوسی تھا۔ وہ ستر برس تک آتش پرستی میں مشغول رہا۔ آخری عمر میں بیمار پڑ گیا۔ کئی روز گزر گئے۔ عمدہ علاج اور تدابیر بھی اسے صحت یاب نہ کرسکیں تو ایک روز خواجہ حسن بصری اس کی عیادت کو گئے۔ عیادت کے بعد آپ نے اس کو نصیحت کی ۔ تم نے ایک عمر کفروشرک میں گزار دی ہے۔ اب تم اپنے انجام کو پہنچنے والے ہو تو اسلام لے آئو۔ شاید خدا تم پر مہربان ہو جائے۔
شمعون نے جواب دیا خواجہ صاحب! مجھے مسلمانوں کی تین عادات سخت ناپسند ہیں۔ ان کی بدولت میں اسلام سے دور رہاہوں اور اب بھی مجھے اس میں کوئی کشش نہیں محسوس ہوتی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا تو بیان کروہ کونسی ناپسندیدہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے تو اسلام کا منکر ہے
اس نے جواب دیا اول یہ کہ مسلمان دنیا کو برا کہتے ہیں،جب شب و روز دنیا کے متلاشی اور متوالے ہیں،
دوئم موت پر یقین کامل رکھتے ہوئے بھی موت کیلئے کوئی عملی سامان تیار نہیں کرتے۔
سوم یہ کہ خدا کے دیدار اور خدا کو حاصل کرنے کے بھی متمنی رہتے ہیں اور ہر وہ کام بھی کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں۔
خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا تمہاری گفتگو بڑی اچھی ہے اس میں حق شناسی کی دلیلیں ہیں مگر یہ بتا کہ تو نے صرف ان باتوں کی وجہ سے ستر برس آتش پرستی میں برباد کر دیئے جبکہ ایک مسلمان اور کچھ نہ کرے کم ازکم خدا کی وحدانیت پر یقین تو رکھتا ہے اس بات سے اس کو خدا کا قرب تو ملے گا۔ تیرا خیال کیا ہے تو نے آتش کو پوجا ہے تو آگے جا کر آگے سے محفوظ رہے گا اور ہم لوگوں نے آتش پرستی نہیں کی تو ہمیں آگ جلادے گی؟ یہ کہہ کر خواجہ صاحب نے فرمایا ایک آگ جلائی جائے میں اور شمعون دونوں اپنا ہاتھ آگ میں رکھ دیں گے۔ دیکھتے ہیں آگ آتش پرست کو جلاتی ہے یا خدا پرست کو؟ یہ کہہ کر جلتی آگ میں خواجہ صاحب نے اپنا ہاتھ رکھ دیا مگر خدا کے فضل سے آگ نے آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچایا۔
شمعون نے یہ روح پرور منظر دیکھا تو اس کا دل ہدایت الٰہی سے منور ہوگیا اور فوراً خواجہ حسن بصری کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولا۔ حضرت! اسی وقت کلمہ پڑھائیے۔ کفر و شرک میں ایک عمر بسر کی ہے۔ چندسانس باقی ہیں، کیا خبر یہ گھڑی پھر نصیب ہو کہ نہ ہو۔ اس کے ساتھ یہ مطالبہ کیا کہ اگر میں خدا پر ایمان لے آئوں تو کیا آپ مجھے گارنٹی دے سکتے ہیں کہ میں عذاب الٰہی سے بچ جائوں گا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کیوں نہیں۔ میں تمہیں لکھ کر دیتا ہوں کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو خدا تمہیں ضرور بخشش دے گا۔ چنانچہ ایک اقرار نامہ تیار کیا گیا جس پر خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر عادل حضرات کے دستخط بطور گواہ کے رقم کئے گئے پھر شمعون نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ ادھر وہ مسلمان ہوا ادھر اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ خواجہ صاحب نے اس کو غسل دیا،کفن پہنایا اور عہد نامہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور اس کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار دیا۔
رات کو خواجہ صاحب کو ایک پل کیلئے بھی نیند نہ آئی۔ ساری رات نوافل میں ادا کی اور خدا کے آگے عرض کرتے رہے، اے رب کریم! میں تو خود ایک گنہگار آدمی ہوں۔ میں کسی کی بخشش کی کیا ضمانت دے سکتا ہوں۔ میں نے ایک دعویٰ کردیا ہے اب تو میری لاج رکھنے والا ہے ورنہ قیامت کے روز میں اس شخص کوکیا منہ دکھائوں گا جس نے میری ضمانت پر کلمہ پڑھا۔ اسی بے کلی میں خواجہ صاحب کی آنکھ لگ گئی، خواب نظر آیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ شمعون کے سر پر تاج ہے اور وہ مکلف لباس میں ملبوس جنت کے باغات میں سیر کر رہا ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا اے شمعون سنا تیرا کیا حال ہے؟ شمعون بولا اے حسن بصری! میں بتانے کیلئے وہ الفاظ اور زبان نہیں رکھتا کہ خدا نے مجھ پر کیا کیا مہربانیاں کی ہیں۔ مجھے میرے گناہوں کی معافی دی۔ مجھے بہشت کے محلات میں اتارا، مجھے اپنا دیدار کروایا اور وہ انعامات دیئے کہ بس میں کچھ بھی بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ پھر اس نے وہ عہد نامہ حضرت حسن بصری کو واپس کردیا اور کہا اب آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں آپ ہر ضمانت سے سبکدوش ہیں۔ جب خواجہ حسن بصری کی آنکھ کھلی تو حیران رہ گئے کہ وہ اقرار نامہ آپ کے ہاتھ میں تھا جو آپ شمعون کے ہاتھ میں دے کر قبر میں اتار آئے تھے۔
آپ فوراً سجدے میں گر گئے اورعرض کی اے مالک کون و مکان! تیری ذات کتنی مہربان اور غفور الرحیم ہے۔ ایک آتش پرست کو جس نے ستر سال تیری نافرمانی کی اور فقط ایک مرتبہ کلمہ پڑھا، تو نے اتنی نافرمانیوں کو بے معنی کردیا اور اس کو نہ صرف بخشش دیا بلکہ اس کو بلندوبالا درجات بھی عطا فرمائے۔
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Red Flower For This Useful Post:
helloinspector (Sunday, January 24, 2016)
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Ahmad Shah Patras Bukhari(PMS) Farrah Zafar Urdu Literature 15 Saturday, November 18, 2017 06:35 PM
Majeed Amjad: Fikr o Funn siddiqui88 Urdu Literature 2 Thursday, June 19, 2014 08:35 PM
Islam Main Mehngai Ka Ilaaj (اسلام میں مہنگائی کا علاج) Fassi Islamiat 0 Sunday, June 03, 2012 01:38 PM
Urdu Essay For PMS Amna PCS / PMS 8 Sunday, May 06, 2012 06:28 PM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.